موضوع : نوجوانوں میں دین سے دوری کا رجحان
عالم دنیا میں دین اسلام ہی ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو صراط مستقیم پر چلنے کا درس دیا ہے اور مسلمان اللہ پاک کے فضل و کرم سے دین اسلام کی سہی معنوں میں پیروی کرتے ہوۓ جنت میں بھی داخل ہوں گے ۔
چونکہ مسلمانوں میں بچے ، نوجوان اور بزرگ سب ہی شامل ہیں اور سب ہی دین اسلام کی عظمت و فضیلت کو سمجھتے ہیں اور اس کی حفاظت کرنے کو عین عبادت سمجھتے ہیں ۔ البتہ نوجوان طبقہ میں کچھ کمزور عادات و معاشرے کی بےجا روایات میں ملوس ہونے کے سبب دین سے دوری کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور شیطان کا تو مقصد ہی لوگوں کو بہکانا اور عملی اعتبار سے ایساکر دینا ہے کہ نجات و مغفرت کا کوئی راستہ باقی نہ رہے، اس کے لئے وہ مختلف طریقے اپناتا ہے۔ لمبے عرصے تک زندہ رہنے کی سوچ انسان کے دل، دماغ میں بٹھا کر موت سے غافل رکھتا ہے اور نوجوان اس سوچ سے ہی جی رہا ہوتا ہے حتی کہ اسی آس امید پرجیتے جیتے اچانک وہ وقت آجاتا ہے کہ موت اپنے دردناک شکنجے میں کَس لیتی ہے پھر اب پچھتائے کیا ہَوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔ فی زمانہ لوگوں کی اکثریت موت کو بھول کر دنیا کی لمبی امیدوں میں کھوئی ہوئی ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں لمبی زندگی کی امید دل میں باندھ لینا جہالت اور نادانی کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر دنیا کی محبت کی وجہ سے۔ جہالت اور نادانی تو یہ ہے کہ آدمی اپنی جوانی پر بھروسہ کر بیٹھے اور بڑھاپے سے پہلے مرنے کا خیال ہی دل سے نکال دے، اسی طرح آدمی کی ایک نادانی یہ ہے کہ تندرستی کی حالت میں ناگہانی موت کو ناممکن سمجھے ۔لہٰذا ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ ان باتوں میں غور کرےکیا لاکھوں بچے جوانی کی دہلیز پر پہنچنے سے پہلے ہی راہیِ عدم نہ ہوئے؟ کیا ہزاروں انسان چڑھتی جوانی میں موت سے ہم آغوش نہ ہوئے؟ کیا سینکڑوں نوجوان بھری جوانی میں لقمۂ اَجَل نہ بنے؟ کیا دَسْیوں نوجوان بیماریوں کا شکار نہ ہوئے؟ ان باتوں میں غورو فکر کے ساتھ ایک اور بات دل میں بٹھا لے کہ موت اس کے اختیار میں نہیں کہ جب یہ چاہے گا تو اسی وقت آ ئے گی، اس طرح جوانی یا کسی اور چیز پر بھروسہ کرنا خود ہی ایک نادانی نظر آئے گی۔ نوجوان دنیا کی محبت میں اپنے دل کو تَسلّی دیتا رہتا ہے کہ ابھی تو زمانہ پڑا ہے، ابھی کس نے مرنا ہے میں پہلے یہ مکان بنا لوں ، فلاں کاروبار شروع کر لوں ، اچھی گاڑی خرید لوں ، سہولیات سے اپنی زندگی بھر لوں جب بڑھاپا آئے گا تو اللہ اللہ کرنے لگ جائیں گے اس طرح ہر کام سے دس کام نکالتا چلا جاتا ہے حتّٰی کے ایک دن پیغامِ اجل آ پہنچتا ہے اب پچھتانے کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں بچتا۔لہذا ایسے نوجوانوں کو چاہئے کہ دنیا کی بے ثباتی اور اس کی حقیقت کے بارے میں معلومات حاصل کرے کیونکہ جس پر دنیا کی حقیقت آشکار ہو جائے کہ دنیا کی لذت چند روزہ ہے اور موت کے ہاتھوں اسے ایک دن ختم ہونا ہی ہے وہ اسے عزیز نہیں رکھ سکتا۔ (کیمیائے سعادت ) نوجوانوں کی دین سے دوری کی چند نمایاں وجوہات پیش نظر ہیں ۔
*علم دین سے دوری ۔*
نوجوانوں میں دین سے دوری کا بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نوجوان علم دین سے بھی
دور ہیں۔ اور معاشرے میں اس طبقہ کے علم دین سے دور ہونے کا سبب ان کے والدین بھی ہیں جو انہیں علم دین حاصل کرنے کے بجاۓ دنیاوی تعلیم پر ہی گامزن رکھتے ہیں حالانکہ نوجوان اگر علم دین سے دوری کا شکار ہوگا تو اپنے ضروری و شرعی مسائل کا حل کیسے تلاش کرے گا ؟ لہٰذا والدین کو چاہیئے اپنی اولاد کو علم دین سے بھی آشنا کریں انہیں علم دین کی طرف راغب کریں تاکہ دین سے جڑے رہیں ۔
*منفی ذہن سازی ۔*
در اصل نوجوان طبقہ ایک نئ سوچ اور نۓ ارادے سے اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے جس کے لیئے وہ اپنے ارد گرد کے چند افراد سے مشورہ طلب کرتا ہے ان افراد میں ہر شخص دنیاوی شعبہ کی طرف بڑھنے کا ذہن دیتا ہے۔ جسے ایک نوجوان اپنے مستقبل کے لیئے بہتر سمجھ رہا ہوتا ہے ۔عموماً دینی ذہن رکھنے والے افراد کم ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نوجوان اپنے ابتداء سے ہی منفی ذہن سازی کے سبب دین سے دور ہوجاتے ہیں۔
*بری صحبت کا شکار ۔*
دور حاضر میں نوجوان طبقہ گیدرینگز میں اٹھنے بیٹھنے کا شکار ہے۔ اور ان میں اچھے برے دوستوں کا ساتھ ہوتا ہے اور ہر صحبت اپنا اثر رکھتی ہے چناچہ سب اپنے جذبات و معاملات آپس میں بیان کرتے ہیں ان میں اچھے برے سب کاموں کا تذکرہ بھی ہوتا ہے اور بری صحبت کے سبب نوجوان غیر شرعی کاموں میں بھی ملوس ہوجاتے ہیں ۔اور دین سے دور ہوجاتے ہیں ۔ لہذا اچھی صحت انسان کو اچھا بناتی ہے اور بری صحبت انسان کو برا بناتی ہے ۔
*غیر دینی لوگوں کی گفتگو سننا ۔*
معاشرے میں چند ایسے لوگ بھی پاۓ جاتے ہیں جو دینی احکام کو حقیر جانتے ہوۓ خود بھی دور ہوتے ہیں اور منظر عام پر آکر دیگر لوگوں کے ذہن کو بھی خراب کرتے اور انہیں دین سے دور کرتے ہیں چونکہ اکثر نوجوان طبقہ کالج اور یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہا بھی ایسے لوگ پاۓ جاتے جو طلباء سے غیر دینی گفتگو کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نوجوان طبقہ غیر دینی گفتگو کے سبب دین سے سہی معنوں میں آشنا نہیں ہوتے اور دین سے دور ہوجاتے ہیں ۔
*ابھی زندگی باقی ہے ۔*
نوجوانوں میں اکثر یہ بات بھی دیکھی جاتی ہے کہ انہیں نیکی کی دعوت دی جاۓ تو ان کی زبان پر یہ جملہ ہوتا ہے ابھی تو پوری زندگی پڑی ہے کچھ وقت بعد یا بڑھاپے میں نیک کام کرلیں گے دین کی طرف آجائیں گے ایسی سوچ بھی انہیں دین سے دور رکھتی ہے اور اپنے وقت کو فضول گوادیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نوجوان طبقہ اس سوچ کے سبب دین سے دور ہے۔
*دینی طبقہ کو حقیر جاننا ۔*
معاشرے میں غیر مذہبی ذہن رکھنے والے افراد دینی طبقہ کو حقیر جان کر ان سے دور ہوتے ان میں اکثر و بیشتر سرپرست بھی ہوتے ہیں جو اپنی نوجوان اولاد کو دین کی طرف بڑھنے نہیں دیتے عموماً دینی طبقہ کے افراد دنیاوی طور طریقوں کے لحاظ سے درمیانہ روی رکھتے ہیں اور عیش و عیاشی سے دو رہتے ہیں جس سبب کچھ افراد اس معاملے میں تنگ ذہنی کا شکار ہونے کے سبب دینی طبقہ کو حقیر جان کر خود بھی دور ہوجاتے اور دوسروں کو بھی دور کرتے ہیں ۔ لہذا وجوہات تو اور بھی ہوسکتی ہیں مگر اختصار کی غرض سے چند مذکورہ وجوہات واضح کی گئی ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے نوجوان طبقہ کو بھی دین اسلام سے جڑ کر دینی اور دنیاوی رہنمائ حاصل کرنے کی سعادت نصیب فرمائے آمین ۔