10 شوال یوم ولادت اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ






اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن 10 شوال،1272ھ مطابق 14جون 1856ء کو ہند کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے۔ 


آپ صاحبِ ثروت دینی وعلمی گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ 

آپ کا نام محمد ہے، دادا نے اَحمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے، آپ کے آباء و اجداد افغانستان کے صوبہ قندھار کے قبیلہ بڑہیچ کے پٹھان تھے، ہجرت کرکے مرکز الاولیاء لاہور آئے اور پھر دہلی چلے گئے، آپ کےوالد علّامہ مفتی نقی علی خان قادری، دادا مولانا رضا علی خان نقشبندی اور پیر و مرشد کا نام سیّد شاہ آلِ رسول مارہروی قادری رحمہم اللہ تھا 

جو علم، معرفت، تقویٰ و پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ کا بچپن پاکیزہ اَخلاق، اِتباعِ سنت اورحُسنِ سیرت سے مزیَّن تھا۔


 ابتدائی تعلیم والد گرامی سے حاصل کی، چار سال کی عمر میں ناظرہ قرآن مجیدختم کر لیا، حافظہ ایسا مضبوط تھا کہ ایک دو بارسبق دیکھ کر کتاب بند کر دیتے اور اُستاد کو لفظ بہ لفظ سنا دیتے، 6سال کی عمر میں میلادُ النبی کے موضوع پرایک بڑے اجتماع میں بیان فرمایا،پانچوں نمازیں تکبیرِاُولیٰ کے ساتھ مسجد میں باجماعت ادا فرماتے، نگاہیں جھکا کر چلتے، 7 سال کی عمر سے رمضان کے روزے رکھنا شروع کردیئے تھے۔  صرف 13 سال 10ماہ کی عمر میں اپنے والد سے تمام علوم کی تکمیل کے بعد سندِ فراغت حاصل کی اور پہلا فتویٰ تحریر فرمایا، پھر آخر وقت تک فتاویٰ تحریرفرماتے رہے۔


کم و بیش 70 علوم میں قلم اُٹھایا، قرآن و حدیث سمیت ہر فن میں دَسترس حاصل تھی، علمِ توقیت میں تو اس قدر کمال تھا کہ دن میں سورج اور رات میں ستارے دیکھ کر اس طرح گھڑی ملالیتےکہ ایک منٹ کا بھی فرق نہ ہوتا، دینی علوم،قرآن، تفسیر، حدیث، اُصول حدیث، فقہ، اُصول فقہ، تصوّف وغیرہ کے ساتھ دُنیوی علوم، علم ریاضی ، علم تکسیر، علم ہیئت  علم جَفَر وغیرہ میں بھی مہارت رکھتے تھے، پورا قرآن مجید فقط ایک ماہ میں حفظ کرلیا تھا، آپ کی حاضرجوابی سے لوگ حیران  رہ جاتے، جوحوالہ بیان فرماتے بعینہ اسی کتاب اورصفحے پر ہوتا ایک لائن کا بھی فرق نہ ہوتا، ہزاروں کتب اورلاکھوں مختلف علمی مسائل کا چلتا پھرتا ذخیرہ تھے، اکثر تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے،سبحان اللّٰہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو  اتنی وسعت علم سے نوازا کہ  ترجمۂ قرآن کنزالایمان سمیت مختلف عنوانات پر اردو، عربی اور فارسی زبان پرمشتمل کم و بیش 1000 کتابیں لکھیں، ”فتاویٰ رضویہ“ جدید 30 جلدوں میں آپ کی علمیت کا نہایت عظیم شاہکار ہے۔ آپ کے اساتذہ کی تعداد کم اور تلامذہ کی تعداد کثیرہے۔ 

آپ عشقِ حبیبِ خدا کا سرتا پا نمونہ تھے، محفلِ
 میلاد شریف میں ادباً دو زانو بیٹھے رہتے، ہرہرادا سنت مصطفیٰ کے مطابق ہوتی،  پوری زندگی حضور  ﷺ کی مدح و ثنا کرتے رہے، عظیم الشان نعت گو شاعر تھے، آپ کا نعتیہ دیوان ”حدائقِ بخشش“ عشق ومحبتِ محبوب خدا  کی خوشبوؤں سے مہک رہاہے۔ اعلیٰ حضرت نہ صرف فرائض و واجبات کی ادائیگی کے سختی سے پابند تھے، بلکہ سنت و نوافل و مستحبات کو بھی ترک نہ فرماتے، ،  تکبر کو کبھی قریب نہ آنے دیا، ہمیشہ تواضع و عاجزی کو اختیار کیا، نہایت سادہ طبیعت کے مالک تھے، قیمتی ملبوسات وغیرہ سے بچتے، سادہ لباس زیبِ تَن فرماتے۔  اعلیٰ حضرت ہر ہر معاملے میں شریعت کی پاسداری فرمایا کرتے، آپ کی دوستی یا بغض فقط اللہ کیلئے ہوتا تھا، کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہ لیتے، بُرا بھلا کہنے والوں کو بھی معاف فرما دیتے، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی حد درجہ خیال کرتے اگرچہ حقدار کوئی چھوٹا سا بچہ ہی کیوں نہ ہوتا، البتہ ناموس رسالت کے بے باک اور نڈر محافظ تھے، اللہ رسول کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی خوب پکڑ فرمائی اور اُن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملادیا اور انہیں کسی بھی طرح سَر نہ اٹھانے دیا۔ الغرض اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔
                                                                         (25)
 صفرالمظفر 1340 ھ بمطابق 1921ء بروز جمعۃ
 المبارک آخری وصیتیں قلمبندکروانے کے بعد آپ اس دارِ  فانی سے کوچ فرماگئے۔ اللہ کریم آپ کے درجات مزید بلند  فرمائے آمین ۔
آپ کا مزارِپُراَنوار بریلی شریف میں ہے اور25 صفر ہی کو ہر سال آپ کا یومِ عرس دنیا بھرمیں منایا جاتا ہے۔(ملخص ازتذکرہ امام احمد رضا، حیات اعلیٰ حضرت)