صبر آدھا ایمان ہے

 


حضور نبی رحمت شفیعِ اُمت ﷺ کا فرمانِ جنت نشان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’جب میں اپنے کسی بندے کو اُس کے جسم، مال یا اولاد کے ذریعے آزمائش میں مبتلا کروں ، پھر وہ صبر جمیل کے ساتھ اُس کا استقبال کرے تو قیامت کے دن مجھے حیا آئے گی کہ اس کے لیے میزان قائم کروں یا اس کا نامۂ اعمال کھولوں۔ 

صبر ایک اخلاقی و ایمانی خوبی ہے جس کے ذریعے انسان کامیابی کی سیڑھی پر بڑھتاچلا جاتا ہے ۔ 

صبر کی ضرورت اکثر اوقات مشکلات اور پریشانیوں میں پیش آتی ہے ۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان ہر طرح سے تھک چکا ہو ٹوٹ چکا ہو اباس کے پاس صبر کے علاؤہ کچھ نہ ہو اس وقت انسان کو رواداری اور برداشت سے کام لینا ہوتا ہے اسے صبر کہتے ہیں ۔

صبر کی لغوی تعریف درج ذیل ہے ۔ 

صبر كےلغوی معنى ركنے،ٹھہرنے یا باز رہنے کے ہیں اور نفس کو اس چیز پر روکنا (یعنی ڈٹ جانا) جس پر رکنے (ڈٹے رہنے کا)کا عقل اور شریعت تقاضا کررہی ہو یا نفس کو اس چیز سے باز رکھنا جس سے رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کررہی ہو صبر کہلاتا ہے۔ بنیادی طور پر صبر کی دو قسمیں ہیں :

 (۱) بدنی صبر جیسے بدنی مشقتیں برداشت کرنا اوران پر ثابت قدم رہنا۔ 

(۲) طبعی خواہشات اور خواہش کے تقاضوں سے صبر کرنا۔ پہلی قسم کا صبر جب شریعت کے موافق ہوتو قابل تعریف ہوتا ہے لیکن مکمل طور پر تعریف کے قابل صبر کی دوسری قسم ہے ۔

شریعت نے جن کاموں سے منع کیا ہے اُن سے صبر فرض ہے۔ 

ناپسندیدہ کام سے صبر‏مستحب ہے۔ تکلیف دہ فعل جو شرعاً ممنوع ہے اس پر صبر ممنوع ہے۔ مثلاً کسی شخص یا اس کے بیٹے کا ہاتھ ناحق کاٹا جائے تو اس شخص کا خاموش رہنا اور صبر کرناممنوع ہے۔ 

صبر جمیل یعنی سب سے بہترین صبر یہ ہے کہ مصیبت میں مبتلا شخص کو کوئی نہ پہچان سکے، اس کی پریشانی کسی پر ظاہر نہ ہو۔اور وہ اپنے ان مشکل حالات میں خاموش رھ کر اللہ کی رضا کی خاطر اپنے مشکل سفر کو گزارے اسے صبر جمیل کہتے ہیں اور اسکا اجر بھی اجر عظیم ہے ۔

صبر کا اعلیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کیا جائے۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ جو تم سے قطع تعلق کرے اس سے صلہ رحمی سے پیش آؤ، جو تمہیں محروم کرے اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کرو۔‘‘ اور حضرت سیدنا عیسیٰ رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ارشاد فرمایا: ’’میں تم سے کہتا ہوں کہ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دو بلکہ جو تمہارے ایک گال پر مارے اپنا دوسرا گال اس کے آگے کردو، جو تمہاری چادر چھینے تم کمربند بھی اسے پیش کردو اور جو تمہیں ایک میل ساتھ چلنے پر مجبور کرے تم اس کے ساتھ دو میل تک چلو۔‘‘ ان تمام ارشادات میں تکالیف پر صبر کرنے کا فرمایا گیا ہے اور یہی صبر کا اعلیٰ مرتبہ ہے۔

صبر کی نعمت بڑھانے کے چند طریقے۔

 صبر کی دعا کرنا

دعا مؤمن کا ہتھیار ہے، جب مؤمن اپنا ہتھیار ہی استعمال نہیں کرے گا تویقیناً اس کے خطرناک دشمن نفس وشیطان اس پر حملہ آور ہوتے رہیں گے اور مصیبتوں پر صبر وشکر کی بجائے ناشکری وبے صبری جیسے مذموم اَفعال صادر ہوتے رہیں گے۔


صبر کے فضائل کا مطالعہ کرنا ۔

کیونکہ کسی بھی نیک کام یا اچھے عمل کے فضائل پیش نظر ہوں تو اس پر عمل کرنے کا جلدی ذہن بن جاتاہے، صبر تو وہ‏باطنی خوبی ہے کہ جس کے فضائل قرآن و حدیث 

میں بکثرت بیان فرمائے گئے ہیں ۔

اپنی ذات میں عاجزی پیدا کرنا 

کہ کسی کی طرف سے ملنے والی تکلیف پر بے صبری اور انتقامی کاروائی کا ایک سبب تکبر بھی ہے، جب بندہ اپنی ذات میں عاجزی وانکساری پیدا کرے گا تو انتقامی کاروائی کا ذہن ختم ہوجائے گا اور لوگوں سے ملنے والی تکالیف پر صبر نصیب ہوگااور رحمت الٰہی سے اس صبر پر اجر ملے گا۔اِنْ شَآءَ اللّٰہ 

معاف کرنے کی عادت اپنانا 

جب کسی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو نفس اس سے بدلہ لینے پر اُبھارتا ہے جس کی ضد عفوو درگزر یعنی معاف کردینا ہے، جب بندہ معاف کردینے کی عادت اپنائے گا تو تکالیف پہنچنے پر اسے خود بخود صبر بھی نصیب ہوجائے گا۔

اپنے سے بڑی مصیبت والے کو دیکھنا ۔

کیونکہ جسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ یہی سمجھتا ہے شاید مجھے سب سے زیادہ یا بڑی مصیبت پہنچی ہے اور یہی بات بسا اوقات اسے بے صبری میں مبتلا کردیتی ہے، جب وہ اپنے سے بڑی مصیبت والے کو دیکھے گا تو شکر کرے گا اور اسے صبر کی نعمت نصیب ہوگی۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتاہے:( وَ اصْبِرُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ(۴۶))(پ۱۰، الانفال: ۴۶)ترجمۂ کنزالایمان:’’اور صبر کرو بیشک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں صبر کی عظیم دولت سے مالامال فرماے آمین ۔