تاریخ پاکستان میں علماء اہلسنت کا نمایا کردار







 موضوع: تاریخ پاکستان میں علماء اہل سنت کا نمایا کردار


_________________________

پس تعبیر : نجیب الرحمن عطاری 

_________________________


تاریخِ ہند علماء و مشائخ اہل سنّت کی ناقابل فراموش قربانیوں اور خدمات سے بھری پڑی ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی سے لے کر قیام پاکستان تک خطہ میں علمائے اہل سنّت اور مشائخ طریقت کا نہایت اہم کردار رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس خطہ میں انقلاب کی بنیاد ہی انہوں نے رکھی تو غلط نا ہوگا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ پاکستان کیوں بنا؟ اس کی غرض وغایت کیا تھی؟ پاکستان بنانے کا شوق ہمیں کیوں ہوا ؟ اب یہ ہے کہ ہم یہ چاہتے تھے کہ ایسی آزاد مملکت بنے کہ جس میں مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق حکومت بنائیں۔سیاسی نظام تشکیل دیں ، اسلامی حکومت ہو، ہر شخص کو انصاف ملے، ہر شخص کے ساتھ عدل ہو ، نمازوں کے پابند ہوں ، ہماری نسلیں انگریزوں کی تباہ کاریوں سے بچ جائیں۔ اس لئے ایک خطہ ہمیں الگ درکار تھا نفاذ اسلام اور نظام مصطفیٰ  ﷺ نافذ کرنے کے لئے ہمیں پاکستان بنانے کی ضرورت پڑی۔ جو خطہ حاصل کرنے کا ہم نے خواب دیکھا اس سرزمین کا نام تحریک کے دوران پاکستان تجویز کیا گیا پھر تحریک پاکستان چلی اور پاکستان بن گیا۔ اصل مقصد دین کا ، شریعت کا ، نظام مصطفی ﷺ کا نفاذ تھا یہ اس کی اوّلین ترجیحات تھیں اور یہ بات یونہی  نہیں بتائی جارہی بلکہ اس کا تذکرہ بانی پاکستان جناب محمد علی جناح نے متعدد جلسوں میں کیا ، علمائے اہلسنت نے بنارس کی سنی کا نفرنس میں جو قرار داد پیش کی اس کے محرکات بھی یہی تھے۔ چاروں طرف سے جب مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان ہوا تو سب کے نزدیک یہ بات تھی کہ ایسا ملک ہو کہ جس میں نفاذ اسلام ہو۔ آپ ملاحظہ فرمائیے پاکستان کو اس لیئے بنایا گیا کہ یہاں دین " کا قانون ہو، شریعت کا قانون ہو، ہم اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزاریں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کے ایک جلسے میں کسی نے جناب محمد علی جناح صاحب سے پو چھا تھا کہ پاکستان میں کونسا قانون ہو گا ؟ بانی پاکستان  نے قرآن مجید اٹھا کر کہا تھا کہ پاکستان کو کسی قانون بنانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ پاکستان کا قانون بنا ہوا ہے یعنی قرآن مجید فرقان حمید۔

یہ وعدہ کیا گیا کہ جب پاکستان بنے گا تو قرآن مجید کی حکمرانی ہوگی یعنی شریعت مطہرہ، نظام مصطفیٰ کا نفاذ  ہوگا۔ یہ پاکستان سیکولرزم

(Secularism)

 کے تحت نہیں بنا سوشلزم 

(Socialism) 

کمیونزم Communisnd) 

کے تحت نہیں بنا۔

پاکستان اگر بنا تو اسلام کے نفاذ کے لئے بنا ہے۔ اب جو اس نظریہ کو نہیں مانتا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ وہ پاکستانی نہیں آپ کے دستور کے مطابق  آئین کے مطابق بھی وہ پاکستانی نہیں ہے۔ آپ ملاحظہ فرمائیں۔ صدر مملکت کا حلف نامہ وزیر اعظم کا حلف نامہ، اسپیکر کا حلف نامہ ممبر قومی اسمبلی کاحلف نامہ، اس میں اس بات کو مانا گیا کہ "پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور نظریہ پاکستان کا میں محافظ رہوں گا اس کو جاری کرنے اور نافذ کرنے میں کوشش کروں گا"۔

لیکن  یہ نپے تلے جملے آئین میں بھی موجود ہیں پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور اسلام کے نفاذ کی خاطر وجود میں آیا اور پاکستان میں سوائے اسلام کے نفاذ کے کوئی اور نظام سوشلزم، کمیونزم نہیں چل سکتا۔

اب آئیے ہم وسیع تر حالات کی طرف نظر کریں۔ پاکستان معرض وجود میں کیسے آیا؟ یہ ایک بڑی تاریخ ہے۔ انگریز بڑا مکار ہے ایسا مکار ہے جس کا نقشہ اکبر الہ آبادی نے خوب کھینچا وہ کہتا ہے: 

حضرت )عیسیٰ سے کھ دو کہ گدھے اپنے باندھ لیں )

کھیتی چَرگۓ ہیں حضرت آدم کی تمام کہ عیسائی حضرت آدم کی کھیتی چر گئے ۔ ہندوستان کو تباہ کر دیا، برباد کر دیا، مسلمانوں کے تشخص کو پامال کر دیا۔ غرض یہ کہ بڑی عیاشی اور مکاری سے یہ ہندوستان میں گھسا اور جب تک سلطان ٹیپو زندہ  رہا، سلطان ٹیپو کے ارد گرد علاقوں پر انگریز تسلط ہوچکا تھا اور کچھ پر اس کی حکومت نہ تھی تو  انگریز کے معاون و مددگار تھے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو رحمت و جست رضوان کے پھولوں سے بھر دے، سلطان ٹیپو نے اپنی ایمانی اور ایقانی قوت سے انگریز کو ہندوستان پر مسلط ہونے سے روکا۔ لیکن مسلمانوں کی بدقسمتی کہیئے کہ مسلمان کے اپنے ہاتھوں مسلمانوں کے بظاہر خیر خواہ اور اصل میں دشمن حضرات نے انگریزوں سے مل کر سلطان ٹیپو کو شکست دی۔ سلطان ٹیپو 1799ء میں انگریزوں سے جنگ ہار گیا ۔ مئی 1799میں اس مرد مجاہد، مرد آہن کا وصال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح آزادی کی بنیاد ڈالنے والا سب سے بڑا مجاہد جس کو تاریخ دانوں نے بھلا دیا، مؤرخین نے جس کے ساتھ انصاف نہیں کیا ، لکھنے والوں نے جس کے ساتھ عدل نہیں کیا۔ وہ آپ جانتے ہیں کون ہے جس نے آزادی کا سب سے پہلا پتھر رکھا ؟ جس نے آزادی کا سب سے پہلے سنگ بنیاد رکھا ؟ وہ *مرد مجاہد حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی رحمتہ اللہ علیہ تھے* ، جو دہلی آئے اور تاریخ سے آپ کی بہادر شاہ ظفر سے ملاقات بھی ثابت ہے۔  اور اس کے بعد میں علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ نے دیکھا کہ یہ انگریز ہمارے ذہنوں میں چھا جائے گا۔ مسلمان کی نسل کشی کرے گا۔ ہمارے مذہب اور تشخص کو تباہ و برباد کر دے گا ۔ علامہ فضل حق خیر آبادی نے 1857ء میں دہلی میں بیٹھ کر انگریز کے خلاف جہاد کا فتوی دیا۔  جب فتویٰ مرتب کیا سب اکابر علماء سے اس فتوی پر دستخط کرائے ۔ سارے اکابر علماء نے اس جہاد کے فتوے پر دستخط فرمائے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمتہ اللہ علیہ کا جہاد کا فتویٰ جاری کرنا تھا کہ ہندوستان بھر میں انگریز کے خلاف ایک بہت بڑی عظیم لہر دوڑ گئی اور گلی گلی ، قریہ قریہ، کوچه کوچه پستی بستی شہر شہر قال و جدال ہوا کہ انگریز حکومت کی چولیں ہل گئیں ۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ انگریز بڑا مکار اور خبیث ہے اس نے اپنی تدبیر میں لڑا کر بڑے بڑے لوگوں کو خرید کر اور ڈرا دھمکا کر بے شمار لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اس نے تحریک کو کچل دیا۔ آزادی کی تحریک کو کچل تو دیا مگر حضرت علامہ فضل حق خیر بادی نے آزادی کا سنگ بنیادرکھ دیا تھا اس کو بظاہر انگریز نے وقتی طور پر کچل دیا۔ انگریز کے کھلنے کے بعد کیا ہوا مسلمان دب گئے جوش ولولہ ٹھنڈا وگیا کیونکہ اکثر مجاہدین قتل کر دیئے گئے تھے اور جس زمانے میں انگریزوں کے خلاف آواز اٹھی یہ 1857ء کی بات ہے اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کی اس وقت ولادت ہو چکی تھی ، آپ اس وقت ایک برس کے تھے۔ آپ 1856ء میں پیدا ہوئے۔ 1857ء میں انگریز گورنمنٹ کے خلاف جہاد شروع ہوا اور بریلی شریف میں جو کمپ تھا وہاں مجاہدین کو تربیت دینے والے کون لوگ تھے؟ تاریخ پر نظر ڈالیے وہ حضرت علامہ مولانا نقی علی خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ 

(اعلی حضرت کے والد ماجد )، حضرت علامہ مولانا رضا علی خان رحمۃ اللہ علیہ  ( اعلی حضرت امام اہلسنت کے دادا ) تھے)۔ وہاں بریلی میں بھی مجاہدین کی صفیں درست ہوتیں۔ انگریزوں کے خلاف صفیں درست ہونے کے بعد انگریزوں پر حملے ہوا کرتے تھے لیکن جب اس تحریک کو کچل دیا گیا تو بظاہر یہ تحریک ٹھنڈی ہوگئی لیکن انگریز کے علم میں یہ بات تھی کہ تحریک کو تو ہم نے دبادیا لیکن جذبہ جہاد لوگوں کے دلوں سے نکالنا معمولی کام نہیں۔ ملکہ وکٹوریہ، چڑیل نے ایک مکارانہ چال چلی وہ کیا ؟ ہندوستان میں اعلان ہوا کہ جتنے بھی باغی ہیں سب کو معاف کر دیا گیا ہے۔ حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی چونکہ قوم کو ابھی ان کی ضرورت تھی تو آپ انگریز کے ہاتھ ابھی نہیں آئے تھے۔ ظاہر ہے کہ مجاہدین کو خفیہ ہدایات جاری کرتے اور دہلی سے نکل گئے۔ وہاں سے نکلنے کے بعد کسی طرح علی گڑھ پہنچ گئے اور علی گڑھ میں بھی ایک عرصہ تک پیچھے رہے اور مجاہدین کی مدد کرتے رہے۔ مجاہدین کو مشورے دیتے رہے۔ غرض یہ ہوا کہ جب انگریز نے یہ اعلان کر دیا کہ جتنے بھی باغی ہیں ہم نے سب کو معاف کر دیا۔ پس یہ اعلان ہونا تھا کہ علامہ فضل حق خیر آبادی ان کے دام میں آگئے ۔ انہوں نے سوچا کہ جب ملکہ وکٹوریہ نے اعلان کر دیا اب باہر آجانا چاہیے۔ چنانچہ علامہ فضل حق خیر آبادی باہر آئے اور اپنے وطن خیر آباد پہنچے۔ خیر آباد پہنچ کر چند دن ہی گزارے تھے کہ کسی نے مخبری کی کہ یہی وہ فضل حق ہیں جنہوں نے انگریز گورنمنٹ کے خلاف بغاوت کی اور جہاد کا فتویٰ دیا، چنانچہ علامہ فضل حق خیر آبادی کو گرفتار کیا گیا اور گرفتار کرنے کے بعد لکھنؤ لے جائے گئے ۔ اس کے بعد آپ پر دہلی یا لکھنو میں مقدمہ چلا، غداری کا مقدمہ چلا، ہوا یہ کہ جس نے گواہی دی، گواہی دینے والے کے دل میں مولانا فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ کیلئے کیا نرم گوشہ آیا اس نے ساری کاروائی مکمل ہونے کے بعد علامہ فضل حق خیر آبادی کو پہچاننے سے انکار کر دیا تا کہ ان کی جان بچ جائے۔ جس حج کے سامنے علامہ فضل حق خیر آبادی پیش کیئے گئے اس جج نے علامہ فضل حق خیر آبادی سے کتابیں پڑھیں تھیں اور وہ چاہتا تھا کہ کوئی بہانہ ایسا نکل آئے جس سے علامہ فضل حق خیر آبادی کو رہا کر دیا جائے اب جو گواہیاں ہو ئیں تو اس گواہ نے کہا کہ یہ فتویٰ جس عالم دین نے دیا ہے یہ وہ علامہ فضل حق خیر آبادی نہیں ہیں یہ کوئی دوسرے فضل حق خیر آبادی ہیں جب یہ بیان ہوا اب آپ کے چھوٹنے اور رہا ہونے کی منزل قریب آئی لیکن جب علامہ فضل حق خیر آبادی کا بیان لیا گیا تو اس مرد مجاہد نے انگریز جج کے سامنے یہ اعتراف کیا ۔ "جناب اس گواہ نے مروت میں آکر مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا ہے لیکن جہاد کا فتویٰ میں نے ہی دیا ہے۔ یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا کہ میں یہ کہوں کہ یہ فتویٰ میرا نہیں۔ میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ یہ فتویٰ جہاد میں نے دیا، جو سزا دی جائے میں اسے قبول کرتا ہوں“ اب دیکھئے جب علامہ نے خود اعتراف کر لیا یہ فتویٰ جہاد میں نے دیا۔ تو  فضل حق خیر آبادی کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتار کرنے کے بعد عمر قید سنائی گئی اور جزائر انڈمان بھیج دیا گیا کہ جس کو ہم کہتے ہیں کالے پانی کی سزا،  میں انہیں  بھیج دیا گیا۔ جب ان کو جزائر انڈمان ( کالے پانی) بھیج دیا گیا تو ان کے دونوں صاحبزادے علامہ عبد الحق اور دوسرے علامہ شمس الحق یہ خاموش نہیں بیٹھے اور کورٹ، کچہری میں اپنے والد کے دفاع اور تحفظ کی خاطر مقدمہ بازی کرتے رہے یہاں تک کہ عزیزان گرامی  صفر کا مہینہ تھا، ساڑھے تین چار برس کے بعد جج نے علامہ فضل حق خیر آبادی کی رہائی کا آرڈر دیا کہ علامہ فضل حق خیر آبادی کو رہا کر دیا جائے ۔ علامہ شمس الحق ( آپ کے صاحبزادے) نے یہ آرڈر لے کر جزائر انڈمان کا سفر کیا۔ خدا کا کرنا دیکھئے کہ جب علامہ شمس الحق جزائر انرمان پہنچے اور خوش تھے کہ آج والد کی رہائی ہو جائے گی مگر جیسے ہی وہ جزائر ائمہ مان پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جنازہ تیار ہے لوگ جنازہ پڑھنے کے لئے تیار ہیں علامہ شمس الحق پہنچے فرمایا یہ جنازہ کس کا ہے؟ لوگوں نے کہا تحریک آزادی کے ہیرو علامہ فضل حق خیر آبادی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ آج علی اصبح انتقال کر گئے ۔ علامہ شمس الحق نے اپنے والد ماجد کے جنازہ میں شرکت کی ، علامہ فضل حق خیر آبادی کا مزار ، جزائر انڈمان ہی میں ہے ، ان کے صاحبزادے رہائی کا پروانہ لے کر واپس آگئے ، یوں کہیے کہ علامہ فضل حق خیر آبادی وہ مرد مجاہد ہیں کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے ان کے اخلاص کا بدلہ یہ دیا کہ انگریز کے آزاد کرنے سے پہلے اپنے بندے کو آزاد کر دیا تا کہ انگریز کی آزادی کا دھبہ ان پر نہ لگے اور وہ انگریز کے آزاد کرنے سے پہلے آزاد ہو گئے۔

عزیزان گرامی ادیکھئے یہ ہے سب سے پہلا مرد مجاہد جس نے جان دے کر آزاری کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ اور ان کے ساتھی انہیں تاریخ نے صرف اور صرف اس لئے فراموش کر دیا کہ ان کا تعلق وہابی جماعت سے نہیں تھا، سنی جماعت سے تھا۔ اہلسنت و جماعت سے تھا۔ اسی لئے بطل حریت علامہ فضل حق خیر آبادی کا نام تاریخ سے مٹانے کی اور محو کرنے کی کوشش کی گئی۔ علامہ فضل حق خیر آبادی کون تھے؟ ہم سے نہیں مرزا غالب سے پوچھئے وہ گواہی دیں کے مرزا اسد اللہ خاں غالب اکثر اپنے کلام کی تصحیح علامہ فضل حق خیر آبادی سے کرایا کرتے تھے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی کے والد ماجد حضرت علامہ فضل امام خیر آبادی  تھے۔ چند اسباق مرزا غالب نے ان سے بھی پڑھے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی سے بھی کچھ پڑھا اور جو شعار اس نے کہے نہیں اس میں ایک طرح سے وہ علامہ فضل حق خیر آبادی کے تلمیذ ہیں۔ لوگوں نے جو یہ کہا کہ ان کا تعلق بھی وہابی گروپ سے تھا۔ یہ بالکل غلط ہے۔اب آئیے ان لوگوں کے کرتوتوں پر نظر ڈالیئے جنہوں نے اکابر علماء اہلسنت کو تحریک آزادی و سنی کانفرنس و دیگر  تاریخ پاکستان کے عظیم لیڈروں کو تاریخ  سے مٹانے کی کوشش کی لیکن بحمد للٰہ تعالیٰ آج ڈیڑھ صدی (166)سال بعد بھی علماء حق علماء اہلسنت کی انتھک محنتوں اور کاوشوں کی داستان  مجھ ناچیز کو اپنے اکابر علماء کی تحریر کردہ قدیم کتب کی روشنی میں پیش کرکے حقیقت بیان کرنے کی سعادت مل رہی ہے اور مٹ گۓ مٹانے  والے لیکن  جاری ہے ان کا چرچہ جان اپنی  جنہوں نے اسلام کی  خاطر پیش کی ۔ آج (166)سال بعد بھی اُنہی کا نام روشن ہے جو دین اسلام و پاکستان کی آزادی کے لیئے مخلص تھے  ۔رب تعالیٰ ان کے  مبارک مزاروں پر  مزید اپنی خصوصی رحمتوں کا نزول فرماے ۔

تو ملاحظہ کیجیئے اسماعیل دہلوی  یہ انگریزوں کے مفاد میں کام کر رہے تھے انگریزوں کے کہنے سے سرحد کے غیور مسلمانوں کو کافر و منافق کے فتویٰ جاری کر کے ان سے لڑائیاں کرتے ۔دوسرے  رشید احمد گنگوہی  یہ انگریزوں کے مفاد میں کام کر رہے تھے ۔ آپ " تذکرۃ الرشید (تذکرۃ الرشید" یہ عاشق الٰہی میرٹھی کی تصنیف ہے جس میں مولوی رشید احمد گنگوہی کے حالات و افکار کو جمع کیا گیا ہے اور 1903ء میں میرٹھ سے شائع ہوئی ، اس کے بعد متعدد بار شائع ہوئی ہے۔) اٹھا کر دیکھیئے جگہ جگہ انگریز حکومت کو سرکار انگریز کہا۔ اور یہ کہا کہ میں سرکارانگریز سے تو بغاوت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

غرض مجھے تو ضمنًا یہاں یہ سمجھانا تھا کہ غیر منقسم ہندوستان متحدہ ہندوستان میں جو آزادی کی لہر دوڑائی تو سب سے پہلا شخص جس نے اس کا سنگ بنیاد رکھا وہ *علامہ فضل حق خیر آبادی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ* ہیں اور ان کا تعلق اہلسنت سے ہے۔ الحمدللہ! اہلسنت کو یہ فخر حاصل ہے کہ انگریز کے زمانے میں جنگِ آزادی کرنیوالے ان کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے والے حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ ہیں۔  اور ان کا وصال 1861ء میں ہوا۔ اور اس جنگ میں حضرت علامہ علیہ الرحمہ کے ہمنوا *_مجاہد اعظم مولانا سید کفایت علی کافی مراد آبادی علیہ الرحمہ* تھے ، جو عاشق رسول ﷺ اور اسلام کے سچے سپاہی تھے ور آپ آخر وقت تک  باطل کے آگے جھکے نہیں یہاں تک کے آپ کو 30 اپریل 1858ء کو مراد آباد میں پھانسی دے دی گئی، پھانسی کے وقت حضرت کی زبان پر جواشعار تھے ان میں سے پہلا شعر ہے :" 

 *کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا* 

 *پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا* ۔

 اور مولانا عبدالجلیل علی گڑھی جو انگریز کے خلاف جہاد کرتے

ہوئے شہید ہوئے اور جامع مسجد علی گڑھ میں مدفون ہیں  اور مجاہد اعظم مولانا سید احمداللہ شاہ شہید مدراسی جنہوں نے میدان کارزار میں 

 ذیقعدہ 1275ھ کو جام شہادت نوش فرمایا  ان کے علاوہ بے شمار علماء کرام ایسے بھی جنہوں نے جنگ آزادی میں بڑھچڑھ کر حصہ لیا جیسا کہ حضرت مولانا صدر الدین آزرده وغیرہ اور ان سے بعض توایسے ہیں کہ جن کے نام بھی محفوظ نہ رہ سکے، ظالم تاریخ نویسوں نے کیا ظلم ڈھایا کہ جنہوں نے قربانیاں دیں، جنگِ آزادی میں تکلیفیں، اذیتیں مصیبتیں برداشت کیں، ان کا نام تک تاریخ کے اوراق کی زینت نہ بنے اور جو عوام کے غدار اور انگریز کے وفادار تھے ان کو مجاہد اور جنگ آزادی کا ہیرو بنا دیا۔

مولانا محمد علی جوہر دوسرے مولانا شوکت علی اور اسی قسم کے افراد مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے ہاتھوں میدان یاست آیا اب کیا ہوا۔؟انگریز کو ظلم کرے ایک عرصہ بیت گیا تھا اور اس عرصہ میں یہ مسلم لیڈر آپس میں سر جوڑ کر ساتھ بیٹھتے کہ کیا کرنا چاہیئے انگریز سے نجات حاصل کرنے کے لئے کون سا طریقہ اختیار کیا جائے؟ انگریز کو یہاں سے بھگانے کے لئے کیا طریقہ استعمال کیا جائے؟


تحریک کو سمیٹتے ہوئے عرض کرتا ہوں تحریکیں تو بہت چلیں، پہلے تحریک یہ چلی کہ انگریز کو کیسے نکالا جائے ؟؟ ہندو اور مسلم میں اتحاد ہو جائے۔ ہندو اور مسلمان یہ دونوں متحد ہو کر تحریک چلا ئیں کہ ہم متحد ہیں انگریز کو نکالا جائے جب یہ تحریک اپنے عروج پر پہنچے گی تو ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ جب تحریک چلے گی تو اس کے دوران انگریز بھاگ جائے گا۔ جب انگریز بھاگ جائے گا تو انگریز اتنا سیدھا شریف النفس ہے کہ جب یہاں سے بھاگے گا تو یہ بیٹھ کر فیصلہ کرے گا کہ ہم نے حکومت مسلمانوں سے لی تھی، بہادر شاہ ظفر سے لی تھی ، سلطان ٹیپو سے چھینی تھی تو اب ہمیں یہ حکومت مسلمانوں کے حوالے کر کےجانا چاہیے۔ کیا انگریز جاتا تو اقتدار مسلمانوں کے سپرد کر کے جاتا؟ نہیں نہیں !! اس میں گاندھی اور اس کا ٹولہ ایمر جینسی میں ساؤتھ افریقا سے آیا، آنے کے بعد اس نے ہندوؤں کی کمان سنبھالی۔ بڑی چالاکی اور چابک دستی سے اس تحریک کو اجاگر کیا کہ ہندو مسلم بھائی بھائی کہ پہلے انگریز کو یہاں سے نکالا جائے۔

آپ جانتے ہیں اس کے مضر اثرات کیا ہوئے؟؟ بڑے بڑے ہمارے لیڈر گاندھی کی آندھی میں بہہ گئے اور آپ کو سن کر حیرت ہوگی مولا نا محمد علی جو ہر گاندھی بھی آندھی میں بہہ گئے مولانا شوکت علی، جناب مولانا عبد الباری لکھنوی فرنگی محلی بھی گاندھی کی آندھی میں بہہ گئے  ، خود ہمارے بانی پاکستان محمد علی جناح صاحب بھی گاندھی کی آندھی میں گئے۔ ہوا یہ کہ ہندو اور مسلم میں اتنا گٹھ جوڑ ہو گیا ، اتنا گٹھ جوڑ ہو گیا کہ اب جگہ جگہ نعرے لگنے لگے ”ہندو مسلم بھائی بھائی یہ نعرہ لگایا گیا کہ ہندو مسلم بھائی بھائی ، انگریز کو یہاں سے نکالا جائے ۔ پھر ایک تحریک چلی *اکھنڈ بھارت* “ کیا مطلب؟ کہ مسلمان اور ہندو دونوں ایک ہو جا ئیں اور انگریز کو یہاں سے نکالیں یہ تحریک تھی اکھنڈ بھارت ۔ ایک تحریک چلی *ترک مولات* وہ کیا تھی؟ وہ یہ تھی کہ انگریز کے مال کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ انگریز کے جتنے عہدے ہیں سب واپس کر دیئے جائیں جتنے اس کے بیج، بلے اعزازات، کار کردگی کے تھے یہ سب انگریز کو واپس کر دئے جائیں۔ انگریز کی سرکاری ملازمتیں چھو ر دی جائیں۔

اس تحریک کے چلنے میں جتنے مسلمان تھے سب نے اپنے بیج دے دیئے، اپنے اعزازات واپس کر دئے ، انگریزوں کی ملازمت چھوڑ دی جب ہندوؤں اور مسلمانوں میں یہ (Pact) معاہدہ ہوا تھا کہ سب انگریز کی ملازمت چھوڑ دیں گے تو معاہدہ یہ تھا کہ مسلمان ایک ہندو تین (3:1) کا تناسب یعنی کوئی ایک مسلمان اپنے عہدہ کو چھوڑے تو تین ہندوؤں کو بھی چھوڑنا ہوتا کوئی ایک مسلمان نوکری چھوڑے تو تین ہندو نوکری چھوڑ دیں کیونکہ مسلمان اقلیت میں تھے اور ہندو اکثریت میں تھے۔ اب چاہئے تو یہ تھا ایک مسلمان کے بدلے تین ہند و نوکریاں چھوڑتے مگر اس ہندو بدمعاش نے ایسا ہی کیا جیسا کہ ان کے لیڈروں نے ان کے کانوں میں کھوپ رکھا تھا۔ مسلمان تو معاہدہ کے تحت نوکریار چھوڑ نے لگ گئے ۔ اعزاز واپس کرنے لگ گئے یہاں تک کہ آپ کو حیرت ہوگی کہ ہمارے یہاں پاکستان میں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر ہے۔ انگریز کے زمانہ میں وکٹوریہ کراس ( Victoria Cross) تھا ۔ - یہ انتہائی فوجی اعزاز تھا اور وہ وکٹوریہ کراس ایسا اعزاز تھا کہ جب آدمی لگا کر ہندوستان میں وائسرائے (Viceroy) کے سامنے چلا جائے تو اس کے پیچ وکٹوریہ کراس کو دیکھ کر وہ کھڑے ہو کر اس کا ادب کر تھا۔ گورنر کے پاس چلا جائے وہ کھڑا ہو جائے۔ بڑی بڑی جگہ پر چلا جائے اس اعزاز کے پاس میں وہ سب کے سب کھڑے ہو جائیں۔ جس کو یہ اعزاز ملا اس کو بڑی مراعات حاصل تھیں۔ ساری زندگی کے لئے VIP ہی نہیں بلکہ Very Very VVIP (Important Person اہم ترین شخصیت بن جائے، گویا کہ وہ بہت بڑا اعزاز تھا  لوگوں نے واپس کر دیا۔ اس دور میں مولانا محمد علی جو ہر لوگوں کے ذہنوں میں اور سیاست پر چھائے ہوئے تھے، الکلام آزاد لوگوں کے ذہنوں پر چھایا ہوا تھا، مولانا شوکت علی لوگوں کے ذہنوں پرچھا گئے ۔ مولانا عبد الباری فرنگی محلی لوگوں کے ذہنوں پر چھا گئے۔ نہرو، گاندھی یہ سب لوگوں کے ذہنوں پر چھا گئے کہ انگریز کو یہاں سے نکالا جائے۔ لیکن اس نعرہ ہندو مسلمان بھائی بھائی کے بہت سے مضر اثرات ہوئے۔ مسلمان بے روزگار ہونے لگ گئے۔ مسلمانوں نے نوکریاں چھوڑنی شروع کر دیں۔ اپنے اعزازات واپس کر دیے اور سب سے بڑا بھیانک نتیجہ یہ نکلا کہ ہندؤوں اور مسلمانوں میں شادیاں شروع ہو گئیں۔ اس زمانے میں وہابیہ نے بڑا شاندار کردار ادا کیا انہوں نے یہ کہا کہ جب قربانی کا موقع آتا ہے عید الاضحی میں ہم جو گائے ذبح کرتے ہیں ، گائے ذبح کرنے سے ہندوؤں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ گاۓ ہماری ماتا ہے وہ اس کو خدا مانتے ہیں۔ ہندوؤں میں ایک طبقہ ایسا ہے جس کے تصور سے ذہن میں گھن آتی ہے وہ گائے کا پیشاب بطور تبرک کے پیتا ہے ۔غرض کہ وہابیہ نے فتویٰ دیا لوگوں گائے کو ذبح نہ کرو اس سے ہمارے بھائی ہندو کو تکلیف ہوتی ہے اس طرح انہوں نے اپنی ہندوؤں سے محبت اور وابستگی کا ثبوت دیا۔

1897ء میں *اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجد دین وملت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی* اپنے شباب کے عالم میں تھے جب دیکھا کہ ہندو مسلمان ایک ہوئے جارہے ہیں، نکاح ، شادی بیاہ ہوئے جارہے ہیں آپ نے اپنا مذہبی فریضہ انجام دیتے ہوئے پٹنہ  میں *سُنی کانفرنس* کرنے کے بعد یہ *دو قومی نظریہ* (Two Nation Theory)

 سب سے پہلے امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے پیش کیا اور اس میں امام اہلسنت نے واہ شگاف آواز میں اعلان کیا

 *لباس خضر میں یہاں سینکڑوں رہزن بھی پھرتے ہیں* 


*اگر جینے کی خواہش ہے تو کچھ پہچان پیدا کر* 

میرے عزیز مسلمانوں! ہندو الگ قوم ہے اور مسلمان الگ قوم ہے اور سنو ہمارے سرکار جناب نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: "الكفرُ مِلة وَاحِدَةً كفر ملت واحدہ ہے۔ کفر اگر برطانیہ کا ہو کفر ہے، کفر اگر امریکا کا ہے تو کفر ہے، کفر اگر ہندوستان کا ہے تو کفر ہے کیونکہ کفر ایک ملت ہے۔ یہ مت سمجھنا کہ امریکا کا کفر اور ہے یہاں کا کفر کچھ اور ہے۔ تم نے ہندوستان کے کفر کو اختیار کر لیا ہے یہاں ہندو سے تم نے صلح کر لی اور یہ سمجھے کہ انگریز حکومت دے کر جائے گا نہیں ایسا نہیں“ گاندھی اور اس کی ذریت بھی یہی چاہتی تھی کہ مسلمانوں سے مدد لے کر انگریزوں کو بھگا دیا جائے اور اکثریت میں تو ہندو میں یہ تمام سیاست پر اور پورے ہندوستان پر چھا جائیں گے اور مسلمانوں کو دوبارہ سے کچل دیا جائے گا۔ مگر مولانا شوکت علی نہیں بھانپ پائے ۔مولانا عبدالباری اس کو نہیں بھانپ پائے، دیگر علماء وزعماء اس کو نہیں بھانپ پائے ۔ مگر اس میں شک نہیں کہ اس معاملے میں یہ سب کے سب مخلص تھے کہ مسلمانوں کو آزادی ملنی چاہیئے مگر ان کا سیاسی نقطہ نظر غلط تھا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا محمدعلی جو ہر بریلی شریف آئے۔ اعلی حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان سے ملاقات کی اور اعلیٰ حضرت  بریلوی نے فرمایا " مولانا ! *آپ کی سیاست میں اور ہماری سیاست میں بڑا فرق ہے* ۔ آپ ہندو مسلم اتحاد کے حامی ہیں اور *میں مخالف* ، یعنی ہماری سیاست یہ ہے کہ  ہندوستان کے سنی مسلمانوں کو ایک جگہ کیا جائے اور آپ کی سیاست یہ ہے کہ ہندو مسلمان مل کر انگریز کو بھگائیں اس لئے ہماری آپ سے نہیں بنے گی ۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین ایشی نے بھی اپنی کتاب ”علماء ان پالیٹکس میں اس کا ذکر کیا ہے۔  اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا اتحاد ہو تو یہ لیجئے ( اس غربت کے دور میں جس زمانہ میں پیسے کو بڑی وبلی تھی اپنی جیب خاص سے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ) پچاس روپے مولانا محمد علی جو ہر کو چندہ دیا کہ لیجئے مسلمانوں میں اتحاد قائم کیجئے ۔ اکھنڈ بھارت کو چھوڑ دیں۔ پس امام اہلسنت نے 1897ء میں دو قومی نظریہ پٹنہ سنی کانفرنس میں پیش کر دیا۔ پس اعلیٰ حضرت نے جو یہ دو قومی نظریہ پیش کیا تاریخ گواہ ہے کہ دوقومی نظریہ جو ڈاکٹر اقبال 1931ء میں آلہ آبا کے جلسے میں پیش کیا کہ " میرے ذہن میں ایک نقشہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک الگ مملکت ہونی چاہئے جو مسلم آبادیاں ہیں وہ مسلمانوں کو مل جائیں جہاں ہندو ہیں وہ علاقے ہندوؤں کے زیر اثر آجائیں۔

غور فرمائیے کہاں 1897ء اور کہاں 1931ء کا اجلاس جہاں یہ نقشہ پیش کیا گیا۔ اس معاملے میں علامہ اقبال، اعلیٰ حضرت سے پیچھے ہیں اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے تو 1897ء میں ہی یہ نظریہ پیش کر دیا تھا ۔ اور اس زمانہ میں پیش کیا جس زمانے میں بانی پاکستان محمد علی جناح بھی ہندو مسلم اتحاد کے قائل تھے مولا نا محمد علی جو ہر اور دیگر سب اسی اتحاد کے گرویدہ تھے ۔ عزیزان گرامی ! مگر وقت نے بتایا کہ امام اہلسنت نے 1897میں ہی یہ نظریہ پیش کر دیا تھا ۔ اور اس زمانہ میں پیش کیا جس زمانے میں بانی پاکستان محمد علی جناح بھی ہندو مسلم اتحاد کے قائل تھے مولا نا محمد علی جو ہر اور دیگر سب اسی اتحاد کے گرویدہ تھے ۔ عزیزان گرامی ! مگر وقت نے بتایا کہ امام اہلسنت نے 1897 میں جو نظریہ پیش کیا تمام مسلم جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور انہوں نے فیصلہ کیا خصوصا مسلم لیگ نے اور وہ یہ تھا کہ : " اب ہمیں انگریز سے بھی جان چھڑانی چاہیئے اور ہندو سے بھی جان چھڑانی چاہیئے اور مسلمان ایک علیحدہ قوم ہے اپنے ملک کے لئے جدو جہد کریں اورجب علیحدہ اپنے ملک کے لئے جدو جہد کریں گے تبھی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں عزیزان گرامی! یہ سلسلہ چلالیکن آزادی سے پہلے مولانا محمد علی جو ہر چلے گئے ۔ مولانا شوکت علی چلے گئے۔ اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کے خیر خواہ تھے ۔ جب وہ لوگ گول میز کانفرنس

 Round Table Conference)

 لندن میں گئے تو مولانا محمد علی جو ہر نے کہا " میں تو مر کے جاؤں گا یا آزادی لے کر جاؤں گا۔ آزادی تو نہ ملی مگران کا راستے میں انتقال ہو گیا۔ یہ ان کے اخلاص کا ثمرا تھا کہ مولانا محمد *علی جوہر بیت المقدس میں دفن کئے گئے* ۔ لیکن آج ہمیں یہ بات کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ بیت المقدس میں ایک دو نہیں ہزاروں انبیائے کرام کے مزارات ہیں وہ بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، وہ بیت المقدس جس میں حضور رحمت عالم ﷺ نے شب معراج امامت فرمائی در تمام انبیائے کرام نے حضور رحمت عالم ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ مسلمانوں کی قلت کی وجہ سے آج یہودیوں کے قبضہ میں ہے۔ ناپاک یہودیوں کے پیروں تلے وہ مین ہے۔ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے اس قبلہ اول کو آزاد فرمادے۔ وہ قبلہ اول جس کی دیوار میں سر اٹھا اٹھا کر کسی سلطان صلاح الدین ایوبی کو تلاش کر رہی ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے سولہ برس لڑکر بیت المقدس کا ایک انچ حصہ کسی کو نہیں دیا اور آج کیلوں کانٹے سے لیس مسلمان کتنے بڑی قوت بنے ہوئے ہیں ۔ مگر یہودیوں نے اتنا بڑا اور مکرم خطہ مسلمانوں سے لے لیا۔ اور محض مسلمانوں کی غفلت کی وجہ سے وہ چلا گیا۔ لیکن ضمنا میں یہاں یہ بات عرض کردوں  آپ جانتے ہیں کہ بیت المقدس مسلمانوں کی غفلت سے گیا، وہ قبلہ اول مسلمانوں کی بداعمالیوں سے گیا۔ اگر یہی بد اعمالیاں پاکستان میں رہیں اور اگر یہی بد اعمالیوں کا دروازہ اور پھاٹک پاکستان میں کھلا رہا میں آپ سے فیصلہ چاہتا ہوں بتائیے کہ کیا پاکستان بیت المقدس سے زیادہ متبرک ہے؟ کیا پاکستان بیت المقدس سے زیادہ مکرم محترم ہے؟؟ دیکھو عزیزوں بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں سے چلا گیا، مسلمانوں اگر تم نے اپنی رَوِش تبدیل نہیں کی ۔۔۔ تو خدا نخواستہ کوئی عجب نہیں کہ لاکھوں جانوں کو قربان کر کے جو پاکستان بنا ہے شاید یہ بھی تمہارے ہاتھ سے چلا جائے ۔ اگر تم نے اس نعمت کی قدر نہ کی تو یہ  ممکن ہے۔ 

تحریک آزادی کا نقشہ بدل گیا۔ مسلمانوں کی متحدہ مسلم لیگ بنی اور اس کے قائد بغیر کسی اختلاف کے بانی پاکستان محمد علی جناح قرار پائے ، اور اس کے بعد ایک تحریک چلی اور ایسی زبر دست تحریک چلی کہ جس نے انگریزوں کی چولھیں ہلا دیں۔ اور اس تحریک کو کامیاب بنانے میں سنی مشائخ و علماء کا بہت بڑا کردار تھا جن کی اکثریت *آل انڈیا سنی کانفرنس"*  کے پلیٹ فارم سے 1925ء سے کام کر رہی تھی، اور ان کی ایک بڑی تعداد مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بھی کام کر رہی تھی جن میں مجاہد ملت *مولا نا عبدالحامد بدایونی* اور مبلغ اسلام و شارح نظریہ پاکستان *علامہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی* وغیر ہم نے سب سے نمایاں کردار ادا کیا، بہر حال سنی مشائخ و علماء کی دن رات محنت اور مسلم لیگی قیادت کی رہنمائی اور کارکنان کی سعی نے عوام المسلمین کے دلوں میں آزادی اور حصول پاکستان کی ایسی جستجو پیدا کردی کہ بڑے تو بڑے بچہ بچہ کہنے لگا کہ ”لے کے رہیں گے پاکستان ، بٹ کے رہے گا ہندوستان یہ نعرے لگنے لگے۔ آپ کے بلوچستان کے حوالے سے تاریخ کا ایک اہم ورق موجود ہے۔ بلوچستان کے اسکول کے کچھ لڑکوں نے اپنے خون سے رومال پر یہ نعرہ لکھ کر دیا تھا کہ 'لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان یہ چھوٹے رومال جو جیب میں رکھے جاتے ہیں یہ بانی پاکستان کو ہندوستان میں وصول ہوئے کہ جس میں اسکول اور کالج کے لڑکوں نے اپنے خون سے یہ نعرہ لکھ کر دیا تھا۔ یعنی تحریک اس نہج پر چلی گئی تھی۔

تاریخ کا ایک اہم باب یہ بھی ہے کہ ایک لڑکا کہیں دوڑ رہا تھا دوڑتے ہوئے کہیں اس کو ٹھوکر لگی ٹھوکر لگنے کے بعد بچہ رونے لگا۔ اور گھٹنے سے خون نکلنے لگا کسی ہندو نے جب اس بچہ کو دیکھا اس ہندو نے بچے پر بھپتی کستے ہوئے کہا "اے بچے کیا تم بناؤ گے پاکستان؟؟ کہ اتنے ذرے سے خون سے رونے لگ گئے۔ کیا تم بناؤ گے پاکستان ؟؟ بچوں کا جذبہ یہ تھا۔ کہ بچے نے روتی ہوئی آواز کو روکتے ہوئے کہا۔ " او پنڈت، او ہندو! او ھوتی پر شاد!!! میں اس لئے رو رہا ہوں کہ یہ خون تو میں نے پاکستان کے لئے رکھا تھا جو اس سے پہلے بہہ گیا ۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ مسلمانوں کے بچوں کے کیا جذبات تھے ۔ اور نعرہ یہ تھا:


 *پاکستان کا مطلب کیا* ؟ ؟

 *لا الہ الا الہ محمد رسول اللہ*  اس کی تفصیل کیا تھی ؟؟ وہ یہ کہ پاکستان اس لئے بنے گا کہ یہاں *شریعت کا نفاذ ہوگا،* پاکستان اس لئے بنے گا کہ *دین مصطفی ﷺ کا نفاذ ہوگا،* پاکستان کا مطالبہ اس لئے کیا گیا کہ پاکستان میں نظام مصطفی  کو بر سراقتدار لایا جائے گا۔ اب کیا ہوا ؟ اب ایک تحریک چلی، پہلے تو تھا اکھنڈ بھارت، ترک موالات، نام نهاد ریشمی رومال وغیرہ وغیرہ یہ ساری تحریکوں کے بعد آخری دور میں تحریک اس نہج پر پہنچ گئی کہ ہندو الگ قوم ہے، مسلمان الگ قوم ، اب انگریز کو مجبور کیا جائے کہ ہندؤوں کے لئے خطہ زمین الگ ہو، مسلمانوں کے لئے خطہ زمین الگ ہو، مسلم لیڈر جو لڑ رہے تھے ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ بلوچستان، پنجاب، دہلی، بھی مسلم آبادیاں ہیں یہ سب کی سب پاکستان بنیں گی مگر انگریزوں نےمکاری سے مسلمانوں کو دوٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ دہلی ، فیروز پور اور دیگر کئی علاقے پاکستان کا حصہ نہیں بنے ، جونا گڑھ کو ہڑپ کر لیا اور بعد میں ہندوؤں نے حیدر آباد دکن کو بھی ہڑپ کر لیا، جو بددیانتی ہوئی ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ اس طرح گوداس پور اور پٹھانکوٹ کے علاقے قادیانیوں کی سازش سے ہندوستان میں شامل ہو گئے ۔  غرض یہ کہ اب تحریک کا رخ بدل گیا کہ مسلمانوں کے لیئے خطہ الگ ہونا چاہیئے ۔ اب کیا ہوا سارے علماء اہلسنت ایک طرف سارے بد مذہب ایک طرف یہ بلکل میں ڈٹ کر کہتا ہوں کہ آج دیکھیں پاکستان بنانے کے دعوےدار کون بنتے ؟ پاکستان کس نے بنایا میں آپ کو بتاتا ہوں۔ تاریخی حوالہ دیتا ہوں اور آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ غور سے ملاحظہ فرمائیے۔ ہندوستان سے ایک اخبارچھپتا تھا جس کا نام تھا " وبدی سکندری یہ اخبار رامپور سے چھپتا تھا اپنی اشاعت 10 جون 1946 میں لکھتا ہے۔" جب بنارس میں " سنی کا نفرنس منعقد ہوئی لاکھوں عوام کے سامنے 5000 علماء و مشائخ اہلسنت ( اور پروفیسر اکرم رضا کی تحقیق کے مطابق پانچ سو مشائخ  سات ہزار علماء) نے فیصلہ کیا " تمام علمائے اہلسنت پاکستان کے حق میں ہیں اور ہماری یہ آوار جناح صاحب تک پہنچاری جائے جناح صاحب اور مسلم لیگ اگر حصول پاکستان کے مطالبہ سے دستبردار بھی ہو گئے تو ہم علماء اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔ علماء پاکستان کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہونگے"۔ 

 علماء کی ان کو ششوں میں کیا ہوا۔ ایک کا نفرنس   1946

   میں ہوئی جس کی صدارت *حضرت علامہ کچھوچھوی رحمہ اللہ تعالی علیہ* نے کی۔ 

اس سے پہلے ایک "سنی کا نفرنس 1935ء میں بدایوں میں ہوئی اس کی صدارت کے لئے *حضرت علامہ امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمہ اللہ تعالٰی علیہ*  تشریف لائے۔ اس کے بعد میں پھپوند ایک مقام ہے ہندوستان میں وہاں ایک کانفرنس ہوئی جو *حضرت محدث کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی صدارت میں ہوئی۔* اس کا نام بھی "سنی کا نفرنس " تھا۔ 1946ء میں ایک سنی کا نفرنس اجمیر شریف میں ہوئی۔ جس کی صدارت *سید آل رسول دیوان رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ* نے فرمائی۔ جو اس زمانہ میں خواجہ خواجگان خواجہ غریب نوازکی اولادوں میں سے تھے۔ یہاں ان تمام کا نفرنسوں میں پاکستان بننے کی قرار دار منظور ہوئی۔ اس کے بعد شاہجہان پور،   *1946* میں ایک *سنی کانفرنس* ہوئی۔ اس کے بعد ایک سنی کانفرنس  *اکتوبر 1946* کو عید گاہ *بندر روڈ ، کراچی* کے وسیع میدان میں *حضرت علامہ مولانا غلام رسول قادری رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ* کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ اللہ تعالی ان کے مزار کو رحمت ورضوان کے پھولوں سے سے بھر دے۔(ان کا مزار سولجر بازار کراچی میں ہے۔) اس کا نفرنس میں ہندوستان سے *حضرت علامہ عبدالحامد بدایونی رحمتہ اللہ تعالی علیہ* بھی شریک ہوئے اور *سندھ کے نامور علماء و مشائخ نے ا* س میں شرکت کی۔ اس طرح کی کانفرنسیں ہوئیں تو اہلسنت نے ہندوستان میں ایک تہلکہ مچادیا  اس کے بعد اب بد مذہبوں کو کیا سوجھی۔ ان کا سرخیل کوئی مولوی غیرت مند ہو تو جواب دے اور یہ کہے کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں۔ اگر اس میں ذرہ برابر جرأت ہے تو ہماری بیان  کردہ کو غلط ثابت کر کے بتائے۔ مسلمانوں کا نقطہ نظر یہ تھا مسلمان الگ قوم ہے اور ہندو الگ قوم ہے ۔ ہماری قوم مذہب سے ہے، ہم مسلمان ایک ملت ہیں۔ چاہے کہیں کے بھی ہوں اور دیو بندیوں کے سرخیل نے کیا فتوی دیا ؟؟ کہ یہ بات غلط ہے کہ ملت مذہب سے ہے بلکہ ملت وطن سے ہے۔ ہندو ہمارے وطنی ہیں ہم ایک وطن کے رہنے والے۔ ہم مسلمان ہندوستانی ہیں، ہندو بھی ہندوستانی ہیں۔ لہذا ہم دونوں بھائی بھائی ہیں۔ یہ فتویٰ اتنا مشہور ہوا کہ لوگ آپس میں یہ سمجھنے لگ گۓ کہ یہ آپس کا مولویوں کا مسئلہ ہے ۔ملاحظہ  کریں ڈاکٹر اقبال نے کہا :  

 *عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ* 

 *ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بو العجمی ست* 

 *سرورد بر سر منبر کہ ملت از وطن ست*

 دیو بند کا اتنا بڑا عالم جسے حسین احمد مدنی کہتے ہیں منبر رسول پر بیٹھ کر یہ کہتا ہے ملت وطن سے ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ بد بخت مقام مصطفی  ﷺ سے بے خبر ہے۔ میں کہتا ہوں ملک مذہب سے ہے ۔ اس میں ڈاکٹر اقبال نے کلیۃ اہلسنت و جماعت کے علماء کی ترجمانی کی۔ ( مولوی حسین احمد   مدنی دیوبندی کے اس فتویٰ کے بارے میں تحریک پاکستان کے رکن ممتاز مؤرخ  ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی بھی سنیئے جو انہوں نے اپنے ایک یاد گار انٹرویو میں کہا، چنانچہ ایڈیٹر لکھتے ہیں " ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے تحریک پاکستان میں علماء طلباء تاجروں اور سیاستدانوں کے کردار کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے کہا علماء کی دو جماعتیں تھیں، ایک پاکستان کے حق میں تھی اور دوسری پاکستان کی مخالفت میں۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال اور مولوی حسین احمد مدنی (دیوبندی) کے درمیان مخالفت کی ابتداء اس وقت ہوئی جب 1938ء میں دہلی کی جنگل والی مسجد میں تقریر کرتے ہوئے مولوی حسین احمد مدنی نے کہا کہ دنیا میں جتنی بھی قومیں بنتی ہیں ان کی بنیاد وطنیت ہے، مذہب نہیں   چونکہ یہ بات علامہ اقبال اور اسلام کے فلسفے سے متصادم تھی لہذا علامہ اقبال نے وہ مشہور شعر کہے ۔ اور انجمن طلبہ اسلام کراچی کی جانب سے فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی یاد میں منعقد ہونے والے ایک مذاکرے میں انہوں نے کہا کہ اس نازک دور میں اب مسلمان اپنی بقا کی جنگ لڑرہے تھے مولوی حسین احمد مدنی (دیو بندی) نے دہلی کی مسجد میں یہ کہا کہ مسلمان اور ہندو ایک قوم ہیں کیونکہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں تو علامہ  اقبال نے اپنے اشعار میں اس نظریہ کا فوراً رد کیا ۔

 *سرد و بر سر منبر کہ ملت از وطن است* 

 *چہ بے خبرز مقام محمد عربی است* 

انہوں نے کہا کہ ملک، وطن، ثقافت ، زبان ، قومیت کی بنیاد نہیں، بلکہ ملت عقیدے اور ایمان سے بنتی ہے اور ایمان مقام یا رنگ ونسل کا پابند نہیں ہے ۔پھر کچھ لوگ حسین احمد دیو بندی کے ہم مسلک کہتے ہیں کہ ڈاکٹر اقبال اور حسین احمد دیوبندی کے مابین آخر وقت میں مفاہمت ہو گئی تھی ، یہ بالکل غلط ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔  عزیزان گرامی جب بھارت میں تہلکہ مچ  گیا۔ سارے بد مذہب سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ اس نتیجے پر پہنچ گۓ  کے  انگریز چلا جائے گا لیکن کوشش کرنی چاہیئے کہ انگریز  متحدہ ہندوستان رکھے۔ اقتدار کانگریس کو دے کر جائے۔ لیکن ہوا یہ کہ جب *تحریک علماء اہلسنت* بہت عروج پر چلی حتی کہ تمام علماء دیوبند  کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ پاکستان بن جائے گا۔ انہوں نے یہ کیا کہ اپنے دو تین مولوی مسلم لیگ میں چور دروازہ سے سے بھیج دیئے ۔ وہ کون تھے ؟؟ ۔ مولوی شبیر احمد عثمانی چور دروازہ سے مسلم  لیگ میں اے اس کے علاوہ مولوی ظفر احمد انصاری۔ انھوں نے یہ طے کیا کہ اگر پاکستان بن گیا تو ہماری واہ واہ بھی ہو جائے گی کہ علماء دیو بند بھی تحریک آزادی میں شامل ہیں۔ اور اگر پاکستان نہیں بنا تو ہم تو ہیں ہی ہندوستانی۔

جب تحریک چلی تو دیوبندی مولوی مفتی محمود احراری امداد کا لیڈر حسیب الرحمان لدھیانوی کیا کہتے؟ پوچھو آج فضل الرحمن سے جو  جمعیت علمائے اسلام کے قائد ہیں پوچھو کیا تمہارے ابا کے قائد نے یہ بیان دیا یا نہیں ، اس نے یہ کہا: دس ہزار جناح ، شوکت اور ظفر نہرو کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جاسکتے ہیں  حراری مفتی محمود کے لوٹے نے  کہا یہ پاکستان نہیں پلیدستان " ہے۔ وہ قائد اعظم نہیں کافر اعظم" ہے۔ بتاؤ یہ کس نے کہا اور یہ بات تو میرے نوجوان ساتھیوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ ان کو تاریخ غلط پڑھائی گئی ہے کیونکہ بڑی چالاکی سے بدمذہب لوگوں نے حکومت کی خاطر مدارت کر کے اپنے پیشواؤں کے نام نصاب کی کتابوں میں داخل کروادیئے  اور علماء  مجاہدین اہلسنت کے کارناموں کا ذکر ہی نہیں کیا  اور پاکستان کی تاریخ کو مسخ کر کے نو جوانوں کو پڑھایا گیا۔ ایک بات یہ بھی تھی جو اسمبلی کے ریکارڈ  میں بھی موجود ہے کہ جب ذوالفقارعلی بھٹو وزیر اعظم تھے، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) کے  قائد کے والد مفتی محمود نے قومی اسمبلی کے فلور پر یہ بیان دیا کہ اللہ شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہیں۔

غور کریں ! " جمعیت علمائے اسلام کا قائد یہ کہہ رہا ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد وہ  اس ملک سے کسی طرح وفادار ہو سکتے تھے کہ پاکستان بنے کے بعد بھی کہتے ہیں کہ ہم اس کے بنانے کے گناہ میں شریک نہیں، دوسری طرف احرار کا مشہور مولوی وہابیوں کا بہت بڑا سر خیل عطا اللہ شاہ بخاری وہ تو ہندوؤں کے اتنا قریب ہو گیا کہ جس کی انتہا نہیں کہ خود ان کی ہم مشرب بم مسلک ظفر علی خان نے جب عطاء اللہ شاہ بخاری کو دیکھا کہ اتنا بڑا احرار کا مولوی ہے اور نہرو کی دھوتی سے چمٹ گیا ہے رات دیکھو اس کے پاس۔ اسٹیج پر دیکھو تو اسکے پاس تو اس نے اپنے اخبار چمنستان  میں اک مصرعہ کہا ۔

نہرو جو۔بنے دولہا تو  دولہن مجلس احرار

یو پیر بخآری کو مبارک یہ عروسی 

یعنی عطاءاللہ شاہ بخاری تم کو یہ عروسی مبارک نہرو کو بناو دولھا اور دولہن مجلس احرار آپ غور کریں کہ سارے کے سارے بدمذھب کانگریس میں لگ گئے اور جب مودودی کی روح قرارد داد پاکستان کو دیکھ کر ماتم کر رہی تھی ، اور وہ پاکستان کو نا پاکستان" کہہ رہا تھا، دیو بندی مولوی اس پلیدستان “ اور ”خاکستان اور خون حوار سانپ کہہ رہے تھے، مسلم لیگ کی قیادت کو سپیرا کہا جا رہا تھا اور مسلم لیگ کی حمایت کرنے والوں کو سُوَر اور سور کھانے والے بتا یا جار ہا تھا۔ جب لوگ بانی پاکستان کو کافر اعظم کے نام سے یاد کر رہے تھے، اس وقت علماۓ اہلسنت ایک جگہ جمع ہو گئے اور پاکستان کی آزادی میں بھر پور حصہ لیا جب کہ آج یہ دندتا تے گھوم رہے ہیں کہ پاکستان ہم نے دلایا۔ 

جب پاکستان کی تحریک چلی تو بانی پاکستان نے پوری دنیا میں پاکستان کو متعارف کرانے کے لئے کس کو بھیجا ؟؟ *حضرت مولانا عبد الحامد بدایونی علیہ الرحمۃ کو بھیجا* ۔ دوسرے *حضرت علامہ مولانا شاہ عبد العلیم صدیقی رحمہ اللہ تعالی علیہ* (خلیفہ اعلحضرت ) یہ دونوں پاکستان سے باہر گئے۔ خصوصا مولانا عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ نے عرب کا دورہ کیا اور بے شمار بیرونی ممالک کا دورہ کیا۔ یہ سارا دورہ کرنے کے بعد لوگوں کو متعارف کرایا کہ *پاکستان کیا ہے* ؟ مسلمان *پاکستان کو کس لئے بنانا چاہتے ہیں* ؟  اس کے بعد میں اخبار شاہد ہیں کہ جناح صاحب نے شکر یہ ادا کیا اور ان کو تحریک پاکستان کی خدمات میں *سفیر اسلام* " کا لقب  دیا () اور کہا کہ مولانا عبد العلیم صاحب آپ کو جو ذمہ داری دی گئی آپ نے اس کو کما حقہ انجام دیا۔ اس کا حق ادا کیا میں کہتا ہوں یہ کون لوگ تھے ؟ یہ سب کون تھے۔ 1946

ء میں پاکستان بننے سے ایک سال پہلے بنارس میں سنی کانفرنس ہوئی ، *پانچ ہزار علماء کرام و مشائخ عظام* وہاں موجود تھے بعض کے بقول پانچ سو مشائخ اور سات ہزار علماء وہاں موجود تھے ۔ صف اول میں کون تھا ؟ ایک بھی دیوبندی وہابی شیعہ یا قادیانی نہیں  تھا۔ *حضرت علامہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ امیر ملت علامہ مولا نا سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری علیہ الرحمہ، حضرت علامہ سید محمد محدث کچھو چھوی علیہ الرحمہ، حضرت علامہ ابولبرکات صاحب علیہ الرحمہ*  *حضرت علامہ ابوالحسنات علیہ الرحمہ  ، حضرت علامہ پیر خواجہ قمر الدین سیالوی علیہ الرحمہ  ، حضرت علامہ عبد الحامد بدایونی علیہ الرحمہ* کیا ان میں کوئی وہابی آپ کو نظر آتا ہے، *صدر الافاضل بدر الحماثل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ حجۃ الاسلام علامہ مولانا حامد رضاخان صاحب علیہ الرحمہ* *ملتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ  صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولا نا امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ* یہ سارے صف اول کے علماء تھے۔ انہوں نے پاکستان بنایا *علامہ عبد السلام جبل پوری علیہ الرحمہ، مفتی برهان الحق جبل پوری علیہ الرحمہ* کتنے نام گنے جائیں *_مفتی ظفر علی نعمانی علیہ الرحمہ، پیر صاحب بھر چونڈ وی علیہ الرحمہ* *، مفتی اعظم سرحد مفتی شائستہ گل علیہ الرحمہ  علامہ عبد المصطفی از ہری، حضرت پیر آف مانگی شریف*  *شیخ القرآن مولانا عبد الغفور ہزاروی ، پیر صاحب زکوڑی شریف  حضرت مولاناعبد الستار نیازی رحمۃ اللہ علیہ* ۔ غرض کہ *پانچ ہزار* علماء و مشائخ ایک روایت کے مطابق پنچ سو مشائخ اور سات ہزار علماء کی موجودگی میں قرارداد پیش کی گئی کہ مسلم لیگ اور محمد علی جناح اگر قیام پاکستان کے فیصلے سے  دستبردار بھی ہو گئے تو ہم دستبر دار نہیں ہنگے ہم اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے۔ وہابیوں نے برائے نام اپنے دو تین مولوی بھیج دیئے۔ اور جب پاکستان بنا تو سب آستینیں چڑھا کر باہر آگئے۔ مولانا مودودی باہر آگئے ہم نے پاکستان بنایا ۔ ہم نے پاکستان بنایا، سارے وہابی میدان میں آگئے ہم نے پاکستان بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ *پاکستان اہلسنت والجماعت کے مشائخ عظام نے قائم کیا ہے۔* اور اس کا اعتراف مخالفین نے بھی کیا ہے۔ اب کہیئے جماعت اسلامی کے جو لوگ کہتے ہیں ہم نے پاکستان بنایا وہ سنیں: مودودی صاحب کی اپنی کتاب تحریک آزادی ہند میں تحریک پاکستان کے متعلق کیا لکھنا ہے۔ مودودی صاحب سے پو چھا گیا آپ اس تحریک میں شریک کیوں نہیں ہوتے۔ جواب دیکھیئے " آپ حضرات  ہر گز گمان نہ کریں کہ میں اس کام میں کسی قسم کے اختلاف کی وجہ سے حصہ نہیں لیتا در اصل میری مجبوری یہ ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حصہ لوں تو کس طرح لوں ادھوری تدبیر میرے ذہن کو بالکل اپیل نہیں کرتی ، نہ داغدوزی ہی سے کبھی مجھ کو دلچسپی رہی، اگر کوئی تعمیر پیش نظر ہوئی تو میں دل و جان سے ہر خدمت انجام دینے میں عملاً کوئی خدمت انجام دینے کے بجائے خود طالب علم کی طرح دیکھتا ہوں۔ سوچنے والا اس جزوی اصلاح اور تعمیر کی کیا صورتیں نکالتے ہیں کیامطلب ہوا کہ یہ جو تحریک چل رہی ہے میں صرف ایک طالب علم کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے؟؟۔   پاکستان کے مشہور مؤرخ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جو وزیر تعلیم بھی رہے اور کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ۔ وہ اور ان کے علاوہ دیگر مورخین نے کہا کہ جماعت اسلامی اور مودودی صاحب نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی  میں آپ سے کہتا ہوں کہ یہ سارے دیو بندی وہابی جنہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر پاکستان کی مخالفت کی اس سے بڑی بے شرمی کیا ہوگی کہ جب پاکستان بنا تو سب یہاں آگئے ۔ پاکستان کو " پلیدستان" کہنے والے یہاں آگئے ۔ " نہرو کی جوتی پر دس ہزار جناح قربان کرنے والے " یہاں رو رہے ہیں اور باوجود مخالفت ، اب پاکستان کے ٹھیکیدار بن گئے کہ پاکستان ہم نے بنایا ہے تحریک پاکستان کو ہم نے چلایا ہے۔  اور اب تو جناب جھوٹ اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے اب تو اخبارات میں ان کے مضامین تک بھی آجاتے ہیں کہ تحریک پاکستان میں علمائے دیوبند کا کردار۔ مؤرخ پاکستان علماء دیوبند مثلاً شبیر احمد عثمانی ، ظفراحمد عثمانی اور دیگر کے متعلق کہتا ہے: ان کی اکثریت  پاکستان کے مخالف تھی۔ وہ تو سرے سے دو قومی نظریہ کو مانتی ہی نہیں تھی۔  اب مجھے بتائیے کہ پاکستان کا بنانے والا کون ؟ حقائق سے معلوم ہوا کہ *پاکستان کو اہلسنت نے بنایا*  علماء اہلسنت کی کوششوں سے پاکستان بنا ۔ ریفرینڈہم Refferendum کے وقت علماء  اہلسنت کی کاوشوں سے نتیجہ یہ نکلا کانگریس اپنے علاقوں میں صرف دو فیصد  ووٹ حاصل کر پائی۔ دوسری طرف سرحد میں حضرت پیر آف مانکی شریف رحمہ اللہ تعالی علیہ، حضرت علامہ پیر شائستہ گل رحمہ اللہ علیہ پیر صاحب زکوڑی شریف نے بھر پور کام کیا اور  یہ تحریک اپنے منطقی نتیجے پر پہنچی۔ 

 August 13 رات 12:00بجے اعلان ہوا کہ یہ ریڈیو پاکستان Radio Pakistan. 

اور یوں پاکستان بن گیا۔ چودہ اگست انگریزی تاریخ تھی اور کیا آپ جانتے ہیں کہ چاند کی کیا تاریخ تھی ؟ اللہ اللہ جس رات پاکستان بننے کا اعلان ہوا برصغیر میں اس وقت شب قدر منائی جارہی تھی۔ رمضان کی ستائیسویں شب تھی اور بر صغیر ہندوستان کی تقسیم اس شب میں ہوئی۔ اصل میں شب قدر پاکستان ملنے کی رات ہے۔ لیکن کیا کیا جائے۔ ہمارے یہاں اچھے پھلے پڑھے کیسے آدمی کو چاند کے بارہ مہینے یاد نہیں ۔ کیونکہ سارا نظام انگریز کی معاملات کے تحت چل رہا ہے ہمیں صرف 

14  اگست یاد رہی ۔

ابھی مزید ہزاروں واقعات علماء اہلسنت کی کاوشوں کے باقی ہیں جنہیں اس مختصر تحریر میں نہیں سمایا جاسکتا میرا یہ عنوان ( *تاریخ پاکستان میں  علماء اہلسنت کا نمایا کردار  )* اپنے اندر  وسعت عظیم  رکھتا ہے  ابھی بہت واقعات باقی ہیں لیکن تاریخ کی غرض سے چند باتیں ذکر کی ہیں ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حق بات کرنے حق بات سننے کی توفیق بخشے اور ہمارے وطن عزیز پاکستان کو ہمیشہ آباد  رکھے اور اپنی خاص رحمتوں میں رکھے آمین ۔

تاریخ کی ان سچی باتوں کو اپنی نسلوں کے کانوں تک پہنچائیں تاکہ  ہمارے ملک پاکستان کا مقصد ہماری نسلوں کو یاد رہے اور اپنے وطن کی ترقی و عروج کے لیئے سچے دل سے محنت و خدمت کرتے رہیں ۔

 *پاکستان🇵🇰 زندہ باد* 


پاکستان کا مطلب کیا ؟ 

 *لَا اِلٰہ اِلاّ اللّٰہُ* 


کون ہمارے رہنما 

 *محمّد الرسول اللّٰہُ*