*موضوع: عید الفطر کی خوشیاں برکات و فضائل*
_________________________
*مضمون نگار : نجیب الرحمن عطاری*
_________________________
پیارے آقا ﷺ کی مَحَبَّت سے سرشار مؤمنوں سچی بات تویہی ہے کہ عید اُن خوش بخت مسلمانوں کاحصہ ہے جنہوں نے ماہِ محترم، رَمَضانُ المُبارک کو روزوں ، نمازوں اور دیگر عبادتوں میں گزارا۔تو یہ عید اُن کے لئے اللہ کریم کی طرف سے مزدوری ملنے کا دن ہے۔ ہمیں تواللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ آہ !ماہِ محترم کا ہم حق ادا ہی نہ کر سکے۔
جب کوئی طالب علم امتحان میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ کس قدر خوش ہوتا ہے۔ ماہ رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کے تو کیا کہنے یہ تو وہ عظیم الشان مہینہ ہے۔ جس میں بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اصلاح و ترقی اور نجات اخروی کیلئے ایک خدائی قانون یعنی قران مجید نازل ہوا یہ وہ مہینہ ہے جس میں یہ مسلمان کی حرارت ایمان کا امتحان لیا جاتا ہے۔ ایک مہینے کے سخت امتحان میں کامیاب ہو کر ایک مسلمان کا خوش ہو نا فطری بات ہے۔ چناچہ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک رِوایت میں یہ ہے : جب عید الْفطْر کی مبارک رات تشریف لاتی ہے تواِسےلَیْلَۃُ الْجَائِزۃ یعنی اِنعام کی رات کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے تواللہ جل شانہ اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اِس طرح ندا دیتے ہیں : اے اُمَّتِ مُحمّد ﷺ اُس ربِّ کریم عزوجل کی بارگاہ کی طرف چلو!جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے ۔ پھر اللہ کریم اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے : اے میرے بندو!مانگو!کیا مانگتے ہو؟ میری عزت وجلال کی قسم! آج کے روزاس (نماز عیدکے) اِجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگوگے اُس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا(یعنی اِس معاملے میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتر ی ہو)میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔میری عزت وجلال کی قسم !میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں ) کے ساتھ رُسوا نہ کروں گا۔ بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یا فتہ لوٹ جاؤ۔تم نے مجھے راضی کردیا اورمیں بھی تم سے راضی ہوگیا۔‘‘ (اَلتَّرْغِیْب وَالتَّرھِیْب ج۲ص۶۰حدیث۲۳)
غور کیجیۓ عِید الْفطْر کا دِن کس قدر اہم ترین دن ہے، اِس دِن اللہ ربُّ العزّت کی رَحمت نہایت جوش پرہوتی ہے، دربارِ خداوندی سے کوئی سائل مایوس نہیں لوٹا یا جاتا ۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ کے نیک بندےاللہ تعالیٰ کی بے پایاں رَحمتوں اور بخششوں پر خوشیاں منارہے ہوتے ہیں تو دُوسری طرف مؤمنوں پراللہ تعالیٰ کی اِتنی کرم نوازیاں دیکھ کر اِنسان کا بد ترین دشمن شیطان آگ بگولہ ہوجاتا ہے ۔ چنانچِہ حضرت سَیِّدُنا وَہب بن مُنَبِّہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب بھی عید آتی ہے، شیطان چلا چلا کر روتا ہے ۔اِس کی بدحواسی دیکھ کر تمام شیاطین اُس کے گرد جمع ہوکر پوچھتے ہیں : اے آقا!آپ کیوں غضب ناک اور اُداس ہیں ؟ وہ کہتا ہے: ہائے افسوس ! اللہ تعالیٰ نےآج کے دِن اُمّتِ مُحمّد ﷺ کو بخش دیا ہے، لہٰذا تم اِنہیں لذات اورنفسانی خواہشات میں مشغول کردو۔ (مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ص۳۰۸)
اللہ اکبر اللہ تعالیٰ کی امت محمد ﷺ پر کرم نوازیاں دیکھ کر شیطان کتنا غضب ناک ہوجاتا ہے اور مسلمانوں کو برے کاموں کی طرف راغب کرنے میں کسی صورت نہیں رکتا بلکہ اپنے چیلوں کے ذریعے انہیں غیر شرعی کاموں پر لگوادیتا ہے لہذا ہمیں عید سعید کے اس پر مسرت موقع پر اللہ کریم کا شکر ادا کرتے ہوۓ نمازوں کی پابندی کو مد نظر رکھتے ہوۓ نیکیوں میں گزارنا چاہیئے ۔دیکھا آپ نے! شیطان پر عید کا دِن نہایت گراں گزرتا ہے لہٰذا وہ شیاطین کو حکم صادِر کردیتا ہے کہ تم مسلمانوں کو لذاتِ نفسانی میں مشغول کردو!ایسا لگتا ہے،فی زمانہ شیطان اپنے اِس وار میں کامیاب نظر آرہا ہے۔ عید کی آمد پر ہونا تو یہ چاہئے کہ عبادات وحسنات کی کثرت کرکے ربِّ کائنات کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کیا جائے،مگر افسوس ! صدکروڑ افسوس!اب اکثر مسلمان عید سعیدکا حقیقی مقصد ہی بھلا بیٹھے ہیں اب تو عید منانے کا یہ انداز ہوگیا ہے کہ بے ہودہ نقش و نگار کیا جانے لگا ہے رَقص و سُرُود کی محفلیں گرم کی جاتی ہیں ،گناہوں بھرے میلوں ، گندے کھیلوں ، ناچ گانوں اور فِلموں ڈراموں کا اِہتمام کیا جاتا ہے اور جِی کھول کر وَقْت و دولت دونوں کو خِلاف شریعت افعال میں برباد کیاجاتا ہے۔ افسوس !صد ہزار افسوس! اب اس مبارک دن کو کس قدر غلط کاموں میں گزاراجانے لگا ہے ۔ ان خلافِ شرع باتوں کے سبب ہوسکتا ہے کہ یہ عید سعید ناشکروں کے لئے یوم وعید بن جائے۔ خدارا اپنے حال پر رحم کیجئے ! فیشن پرستی اور فُضُول خرچی سے باز آجائیے ! اللہ تعالیٰ نے فضول خرچوں کو قراٰنِ پاک میں شیطانوں کا بھائی قراردیا ہے۔چنانچہ پارہ سُوْرَۃُ بَنِیْ اِسْرَآءِیْل کی آیت نمبر26 اور27 میں ارشاد ہوتا ہے:
ترجمۂ کنزالایمان:اور فضول نہ اُڑابے شک اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے ربّ کا بڑاناشکرا ہے۔ آج کل گویا لوگ صِرف نئے نئے کپڑے پہننے اورعمدہ کھانے تناول کرنے کو ہی مَعاذ اللہ عید سمجھ بیٹھے ہیں ۔ذرا غور توکیجئے !ہمارے بزرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہ بھی توآخر عید مناتے رہے ہیں ، مگر اِن کے عید منانے کا انداز ہی نرالا رہا ہے،وہ دُنیا کی لذتوں سے کوسوں دُور بھاگتے رہے ہیں اور ہر حال میں اپنے نفس کی مخا لفت کرتے رہے ہیں ۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ عید کے دِن غسل کرنا ، نئے یا دُھلے ہوئے عمدہ کپڑے پہننا اور عطرلگانا مستحب ہے،یہ مستجبات ہمارے ظاہری بدن کی صفائی اور زینت سے متعلق ہیں ۔لیکن ہمارے ان صاف ،اُجلے اور نئے کپڑوں اور نہائے ہوئے اور خوشبو ملے ہوئے جسم کے ساتھ ساتھ ہماری روح بھی ہم پر ہمارے ماں باپ سے بھی زیادہ مہربان خدائے رَحمٰن کی محبت و اِطاعت اور امّت کے غمخوار، دو جہاں کے تاجدار ﷺ کی اُلفت وسُنَّت سے خوب سجی ہوئی ہونی چائیے ۔
*مرحومین کے لیئے عید کا ایصال ثواب*
منقول ہے کہ جو شخص عیدکے دِن تین سو مرتبہ سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ پڑھے اورفوت شدہ مسلمانوں کی اَرواح کو اِس کا ایصالِ ثواب کرے تو ہر مسلمان کی قَبْر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں اور جب وہ پڑھنے والا خود مرے گا، اللہ تَعَالٰی اُس کی قَبْر میں بھی ایک ہزار انوار داخِل فرمائیگا۔ (مُکَاشَفَۃُ القُلُوب ص ۳۰۸)
اللہ کریم ہمیں عید سعید کی برکات سے مالامال فرماۓ آمین
۔