رمضان اور روزہ

 


اللہ تَبارَکَ وَ تَعَالٰی کا کتنا بڑا کرم ہے کہ اُس نے ہم پر ماہِ رَمَضانُ المبارَک کے روزے فرض کرکے ہمارے لئے سامانِ 

تقویٰ فراہم کیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ پارہ2

 سُوْرَۃُ الْبَقْرَہکی آیت نمبر183تا 184 میں ارشاد فرماتا ہے: 

ترجَمَۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! تم پر ر وزے فَرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے، گنتی کے دن ہیں تو تم میں جوکوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دِنوں میں اور جنہیں اِس کی طاقت نہ ہو وہ بدلے میں ایک مسکین کا کھاناپھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اُس کے لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بَھلا ہے اگر تم جانو۔

اس کی تفسیر میں علماء کرام فرماتے ہیں ۔

تم پر روزے فرض کیے گئے۔} اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔’’شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے۔‘‘(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۳، ۱ / ۱۱۹)


                      روزہ بہت قدیم عبادت ہے


            اس آیت میں فرمایا گیا ’’جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کرتمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں اگرچہ گزشتہ امتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف ہوتے تھے ۔ یاد رہے کہ رمضان کے روزے10 شعبان 2ہجری میں فرض ہوئے تھے۔ (در مختار، کتاب الصوم، ۳ / ۳۸۳)


                         روزے کا مقصد کیا ہے 


            آیت کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:

وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى (نازعات: ۴۰،۴۱)


ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔


            حضرت عبداللہ بن مسعود  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اے جوانو! تم میں جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ قاطعِ شہوت ہے۔(بخاری، کتاب النکاح، باب من لم یستطع البائۃ فلیصم، ۳ / ۴۲۲، الحدیث: ۵۰۶۶)


تم پر روزے فرض کیے گئے۔} اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔’’شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے۔‘‘(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:

۱۸۳، ۱ / ۱۱۹

                  روزہ بڑی پرانی عبادت ہے


آیت کریمہ کے ابتدائی حصّے کے تحت ’’تَفْسِیرِ خازِن‘‘ میں ہے: تم سے پہلے لوگوں سے مراد یہ ہے: حضرت سَیِّدُنا آدَم صَفِیُّ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامسے حضرت سیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامتک جتنے انبیائے کرام عَلَيْهمُِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام تشریف لائے اور ان کی اُمتیں آئیں ان پر روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں (مگر اُس کی صورت ہمارے روزوں سے مختلف تھی)۔ مطلب یہ ہے کہ روزہ بڑی پرانی عبادت ہے اور گزشتہ اُمتوں میں کوئی اُمت ایسی نہیں گزری جس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہاری طرح روزے فرض نہ کیے ہوں ۔(تفسیرِ خازن ج۱ص۱۱۹ مُلَخَّصاً) اور’’ تفسیر عزیزی‘‘ میں ہے : حضرت سَیِّدُنا آدَم صَفِیُّ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامپر ہر مہینے کے ایامِ بِیْض( یعنی چاند کی13، 14،15تاریخ ) کے تین روزے فرض تھے۔اور یہود(یعنی حضرت سَیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی قوم )پر یومِ عاشورا( یعنی 10 محرَّمُ الْحرام کے دن) اور ہر ہفتے میں  اورکچھ اور دنوں کے روزے فرض تھے اور نصاریٰ پر ماہِ رمضان کے روزے فرض تھے۔ (تفسیرِ عزیزی ج۱ص۷۷۱)

                       روزہ کس پر فرض ہے 

توحیدو رِسالت کا اِقرارکرنے اور تمام ضروریاتِ دِین پر ایمان لانے کے بعدجس طرح ہر مسلمان پر نماز فرض قراردی گئی ہے اسی طرح رَمضان شریف کے روزے بھی ہر مسلمان (مرد وعورت ) عاقل وبالغ پر فرض ہیں۔’’دُرِّمُخْتار‘‘میں ہے:ر وزے10شعبانُ الْمُعَظَّم 2 ؁ ھ 

کو فرض ہوئے۔(دُرِّمُخْتار و رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۳۸۳) 

               روزہ دار کا ایمان کتنا پختہ ہے

میرے پیارے قارئین ! سخت گرمی ہے،پیاس سے حلق سوکھ رہا ہے ،ہونٹ خشک ہورہے ہیں،پانی موجود ہے مگر روزہ دار اُس کی طرف دیکھتا تک نہیں ، کھانا موجود ہے بھوک کی شدت سے حالت دِگر گوں ہے مگر وہ کھانے کی طرف ہاتھ تک نہیں بڑھاتا۔ آپ اندازہ فرمائیے! اِس مسلمان کاخدائے رحمن عَزَّوَجَلَّ پر کتنا پختہ ایمان ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اِس کی حرکت ساری دُنیا سے تو چھپ سکتی ہے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پوشیدہ نہیں رَہ سکتی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ پراِس کا یہ یقین کامل روزے کا عملی نتیجہ ہے، کیونکہ دُوسری عبادتیں کسی نہ کسی ظاہری حرکت سے ادا کی جاتی ہیں مگر روزے کا تعلق باطن سے ہے، اِس کاحال اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی نہیں جانتا اگر وہ چھپ کر کھاپی لے تب بھی لوگ تو یہی سمجھتے رہیں گے کہ یہ روزہ دار ہے، مگر محض خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ کے باعث وہ 

کھانے پینے سے اپنے آپ کو بچا رہا ہے۔


              روزہ رکھنے کا دنیاوی اخروی اجر 


جس نے رَمضان کا روزہ رکھا اور اُس کی حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیے اُس سے بچا تو جو(کچھ گناہ) پہلے کرچکا ہے اُس کاکفارہ ہو گیا ۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابنِ حَبّان ج۵ ص۱۸۳حدیث۳۴۲۴)


               جہنم سے 70سال کی مسافت دُور

جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت دور کردے گا۔ ( بُخاری ج۲ص۲۶۵حدیث۲۸۴۰)

  

 


                       ںسرخ یاقوت کا مکان


جس نے ماہِ رَمضان کاایک روزہ بھی خاموشی اور سکون سے رکھا اس کے لئے جنت میں ایک گھرسبز زَبرجد یا سرخ یا قوت کا بنایا جائے گا۔ (مُعجَم اَوسَط ج ۱ ص ۳۷۹ حدیث ۱۷۶۸