موضوع : فلسفہ اعتکاف اور فضائل و برکات اور فوائد
کالم نگار : نجیب الرحمن عطاری
اسلام دینِ فطرت ہے اور فطرت کا تقاضا ہے کہ انسان باہم مل جل کر رہیں ایک معاشرہ قائم کریں اور معاشرتی زندگی میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار بنیں۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوں اور محنت ومشقت کے ذریعے حصول رزق کی راہ اپناتے ہوئے خود بھی ضروریات زندگی حاصل کریں اور معاشرے کے مجبور و معذور افراد کو بھی زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کریں۔ بنابریں اسلام میں اس بات کی قطعاً گنجائش نہیں کہ کوئی شخص معاشرے سے بالکل الگ تھلگ کسی کونے میں بیٹھ جائے اور اپنے لیے رزق، لباس اور دیگر ضروری اشیاء کی خاطر دوسروں کا دست نگر اور محتاج بن کر رہ جائے حتی کہ خود سرکار دوعالم ﷺ صحابہ کرام اور امت مسلمہ کے تمام اکابر تجارت یا کسی پیشہ سے متعلق رہے ہیں۔لیکن دوسری طرف نفس و شیطان و نفس پرستی اور معاشرے کی ہنگامہ خیزیوں کا ڈسا ہوا، انسان ، پریشانیوں سے نجات چاہتا ہے یہ امن و سکون کی دولت سے مالا مال ہونا چاہتا ہے ، سکون قلبی کی بیش قیمت نعمت سے سعادت مندی کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے۔ بازار کے شور و شغب اور میدان کے لہو و لعب سے کچھ دیر کے لیے اپنے کانوں اور آنکھوں کو محفوظ کرنا چاہتا ہے، وہ کچھ وقت اپنے خالق ومالک کے ساتھ تخلیہ کا خواہش مند ہے وہ قال کی دنیا سے حال کی زندگی میں جانے کا آرزو مند ہے۔تو کیا اسلام اس کی اس تمنا کو پورا نہیں کرتا کیا اسلام نے اس کی گوشہ نشینی پر پابندی لگا رکھی ہے۔ کیا دین حق اسے دنیا کے بکھیڑوں سے کچھ وقت باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بتاتا ؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں اسلام کا راستہ اعتدال کا راستہ ہے۔ دین حق کے داعی امت کے خیر خواہ اور کائنات انسانیت ہی نہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا :بہترین کام وہ ہے جو اعتدال پر مبنی ہو۔ لہذا اسلام نے اپنے ماننے والوں کو نہ تو کسب معاش سے روکا اور نہ خلوت گزینی سے نہ تو ان پر معاشرتی زندگی سے باہر جانے کی پابندی لگائی اور نہ گوشہ نشینی کو زندگی کا جزولازم قرار دیا بلکہ ایک درمیانہ راستہ بتایا وہ یہ کہ معاشرے کے دوسرے افراد کے ساتھ مل کر رہو اپنے لیے بھی اسباب معیشت تلاش کرو اور دوسروں کے کام بھی آؤ اور جب ادھر سے تھک جائے اور اپنے دل کو دنیوی محبت سے زنگ آلود ہوتا دیکھو تو خدا کے گھر میں داخل ہو جاؤ دوکان و مکان آل و اولاد، دولت و سامان دوست و رشتہ دار سب سے منہ موڑ کر صرف خالق حقیقی کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ اور کچھ دنوں تک اپنے دل کی میل اور زنگ کو تلاوت قرآن، حمد و نعت تسبیح تیل، درود و سلام اور نوافل کے ایک سال سے دور کر دو۔ اس گوشہ نشینی اور حاضری کا نام اعتکاف ہے۔ گویا اسلام میں اعتکاف وہ اہم عبادت ہے جو قلب و نظر کی طہارت و نظافت کا ضامن ہے چونکہ اعتکاف ایک قسم کی گوشہ نشینی ہے اس سے وہ تمام فوائد جو گوشہ نشینی سے حاصل ہوتے ہیں مختلف بھی ان سے متمتع اور لطف اندوز ہوتا ہے۔
لہذا ماہ رمضان کے آخری عشرے (یعنی دس دن ) میں مسلمان مساجد میں اعتکاف کی نیت سے ٹھہرتے ہیں ۔جس میں انہیں کثرت سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا انمول موقع ملتا ہے ۔ پابندی کے ساتھ نمازیں باجماعت اداکرنے کا موقع ملتا ہے ۔ قرآن مجید کی تلاوت کر نے کا ذوق و شوق بڑھتا ہے ۔مسجد کے امام صاحبان و علماءِحق کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا شرف ملتا ہے ۔اسی سبب علم دین حاصل کرنے کا بھی موقع ملتا ہے ۔ اور رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں تو ہر نیک عمل کا ثواب ستر گنا زیادہ دیا جاتا ہے تو سبحان اللہ ان سب نیک عمل کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ملتا ہے۔ اسی طرح ماہ رمضان میں اعتکاف کرنے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں۔ *سب سے پہلے تو اعتکاف سنت مصطفی ﷺ ہے* ۔بعض علماء نے اعتکاف کے بارے میں یوں فرمایا ہے حضرت عطاء رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں معتکف کی مثال اس مجرم کی سی ہے جس نے اپنے آپ کو رحمٰن کی بارگاہ میں حاضر کر دیا ہو اور عرض کر رہا ہو کہ خدا کی قسم میں اس وقت تک نہیں جاؤں گاجب تک تو مجھ پر رحم نہیں کرے گا۔ (شعب الايمان، باب في الاعتكاف ، ج 5، ص 437 مكتبة الرشد للنشر والتوزيع رياض)
اعتکاف کے فضائل
*پہلی فضیلت* تو یہ ہے کہ محبوب خدا ﷺ کی سنت مبارکہ ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے ۔
(صحیح بخاری باب اعتكاف العشر الأوخريج 3، ص 47 )
دو حج اور دو عمروں کا ثواب
جو رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرے اسے دوحج اور دو عمرے کا ثواب ملتا ہے، چنا نچہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں دس (10) دنوں کا اعتکاف کرلیا تو ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے کیے (اہل ایمان، باب اعتکاف، جلد 5، صفحہ 436 )
سعید بن عبد العزیز فرماتے ہیں مجھ تک حضرت مری رحمۃ اللہ علیہ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ معتکف کے لیے ہر دن میں حج کا ثواب ہے۔ (شعب الايمان، باب في الاعتكاف ، ج 5، ص 437)*
اعتکاف کے روحانی فوائد
اس سے پہلے کہ اعتکاف کے روحانی فوائد کا ذکر کیا جائے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ گوشہ نشینی اسی وقت فائدہ مند ہو گی جب اس کے نقصانات سے اپنے آپ کو بچایا جائے یعنی اپنے آپ کو مستقل گوشہ نشین بنا کر معاشرتی زائد سے محرومی کی راہ اختیار نہ کی جائے۔ لہذا اس سلسلے میں رسول اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ پیش نظر رہنا چاہیے۔ آپ نے جہاں غار حرا میں تخلیہ اور گوشہ نشینی کے ذریعے اپنے رب سے لو لگائی جہاں تجارت، جہاد، تبلیغ دین اور خدمت خلق اور دیگر معاشرتی کاموں میں بھی بھر پور حصہ لیا ہے۔ اعتکاف جو در حقیقت ایک مخصوص وقت کے لیے مخصوص جگہ پر گوشہ نشینی کا نام سے معتکف کو روحانی جلا بخشنے کا اہم ذریعہ سے اس حالت میں معتکف کو درج ذیل روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو در حقیقت گوشہ نشینی کا ثمرہ اور نتیجہ ہے۔
پہلا فائدہ
معتکف گوشہ نشینی کی وجہ سے عبادت اور غور و فکر کے لیے فراغت کی نعمت سے مالامال ہوتا ہے اس لیے وہ مخلوق کے ساتھ مصروف گفتگو ہونے کی بجائے اپنے رب سے مناجات کا شرف حاصل کرتا ہے۔ اس تخلیہ میں اس پر دنیوی واخروی امور سے متعلق انعامات خداوندی منکشف ہوتے ہیں۔اسی لیئے حضرت ذوالنون مصری رحمہ اللہ نے فرمایا۔ مومن کی خوشی و سرور اور لذت تنہائی میں اپنے رب سے مناجات
میں ہے حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ نے فرمایا۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ گفتگو کو چھوڑ کر اللہ تعالے کے ساتھ گفتگو سے مانوس نہیں ہوتا۔ اس کا علم کم، دل اندھا اور عمر ضائع ہوتی ہے ۔
دوسرا فائدہ
معتکف ان گناہوں سے محفوظ رہتا ہے جو عام طور پر میل جول سے پیدا ہوتے ہیں مثلاً جب وہ بازار، گھر اور دیگر مجالس سے الگ تھلگ مسجد میں گوشہ نشین ہو جاتا ہے تو کسی کی غیبت نہیں کرتا، چغلی کھانے سے محفوظ رہتا ہے۔
تیسرا فائدہ
معتکف گوشہ نشینی کی وجہ سے کئ فتنوں سے بھی محفوظ رہتا ہے اس طرح وہ اپنے دین اور نفس کی حفاظت کرتا اور سلامتی کے غار میں پناہ لیتا ہے۔
سبحان اللہ اعتکاف کے ذریعے کئ دینی و دنیوی اور اخروی فوائد حاصل ہوتے ہیں
اللہ کریم ماہ رمضان میں اعتکاف کرنے والوں کے اعتکاف کو قبول فرماۓ اور ہمیں رمضان المبارک کی برکات سے مالامال فرماے آمین۔