موضوع : ماہ رمضان کے فضائل و برکات اور عبادات
مضمون نگار : نجیب الرحمن عطاری
اللہ تعالیٰ کے محبوب ، دانائے غُيُوبِ مُنَزَّهُ عَنِ الْعُيُوبِ کا فرمان عالی شان ہے روزہ عبادت کا دروازہ ہے۔ (الجامع الصغير ص ١٤٦ حديث (٢٤١٥) چنانچہ پارہ 2 سورة البقرۃ آیت نمبر185 میں مقدس قرآن میں خدائے رحمن کا فرمان عالی شان ہے ترجمة كنز الایمان : رمضان کا مہینا، جس میں قرآن اترا،لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن با تیں ، توتم میں جو کوئی یہ مہینا پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یاسفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتاہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔ *ماہ رمضان کو رمضان کیوں کہتے ہیں ؟*
رمضان، یہ " رمض" سے بنا جس کے معنی ہیں گرمی سے جلنا" کیونکہ جب مہینوں کے نام قدیم عربوں کی زبان سے نقل کئے گئے تو اس وقت جس قسم کا موسم تھا اس کے مطابق مہینوں کے نام رکھ دے گئے اتفاق سے اس وقت رمضان سخت گرمیوں میں آیا تھا اسی لئے یہ نام رکھ دیا گیا۔ (النهاية لابن الأثير ٢ ص ٢٤٠)
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: حضور پرنور، ﷺکا فرمان پر سرور ہے پانچوں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعے تک اور ماہ رمضان اگلے ماہ رمضان تک گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔
( حدیث1مسلم 233 ص44)
ماہ رمضان کی عظمت و فضیلت کے کیا کہنے اس کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے اس کی فضیلت کے بارے میں فرمایا اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ کاش پورا سال رمضان ہی ہو ۔
(ابن خزیمہ، جلد 3، صفحہ 190، حدیث 1889)
حضرت سید نا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ محبوب رحمٰن ﷺ نے ماہ شعبان کے آخری دن بیان فرمایا اے لوگو تمہارے پاس عظمت والا برکت والا مہینا آیا، وہ مہینا جس میں ایک رات (ایسی بھی ہے جو ) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس ماہ مبارک) کے
روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے اور اس کی رات میں قیام سنت ہے، جو اس میں نیکی کا کام کرے تو ایسا ہے جیسے اور کسی مہینےمیں فرض ادا کیا اور اس میں جس نے فرض ادا کیا تو ایسا ہے جیسے اور دنوں میں 70 فرض ادا کیے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور یہ مہینا مؤاسات ( یعنی غمخواری اور بھلائی ) کا ہے اور اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے۔ جو اس میں روزہ دار کو افطار کرائے اس کے گناہوں کے لئے مغفرت ہے اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جائے گی اور اس افطار کرانے والے کو ویساہی ثواب ملے گا جیسا روزہ رکھنے والے کو ملے گا، بغیر اس کے کہ اُس کے اجر میں کچھ کمی ہو ۔ ہم نے عرض کی یا رسول اللّٰہ ﷺ ہم میں سے ہر شخص وہ چیز نہیں پاتا جس سے روزہ افطار کروائے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی یہ ثواب تو اُس شخص کو دے گا جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے روز ہ افطار کروائے اور جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلایا، اُس کو اللہ تعالٰی میرے حوض سے پلائے گا کہ کبھی پیاسا نہ ہوگا، یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے۔ یہ وہ مہینا ہے کہ اس کا اول حصہ (یعنی ابتدائی دس دن ) رحمت ہے اور اس کا اوسط (یعنی درمیانی دس دن ) مغفرت ہے اور آخر ( یعنی آخری دس دن ) جہنم سے آزادی ہے۔ جو اپنے غلام پر اس مہینے میں تخفیف کرے (یعنی کام کم لے اللہ تعالٰی اسے بخش دے گا اور جہنم سے آزاد فرمادے گا۔
*چار چیزوں کی کثرت کرو*
اس مہینے میں چار باتوں کی کثرت کرو، ان میں سے دو ایسی ہیں جن کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کرو گے اور بقیہ دو سے تمہیں بے نیازی نہیں۔ پس وہ دو باتیں جن کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کرو گے وہ یہ ہیں(1) اللّٰہ کی گواہی دینا ( ۲ ) استغفار کرنا۔ جبکہ وہ دو باتیں جن سے تمہیں غَنا (یعنی بے نیازی ) نہیں وہ یہ ہیں: (1) اللہ تعالٰی سے جنت طلب کرنا (۲) جہنم سے اللہ کی پناہ طلب کرنا
(شعب الایمان ج 2 ص 200 حدیث 320، ابن خزیمه ج 3
میرے پیارے قارئین اس حدیث مبارکہ میں جن چار کاموں کی کثرت کا حکم ملا ان کو بجالانا یعنی کلمہ شہادت کی کثرت کرنا کثرت سے استغفار کرنا اللہ تعالٰی سے جنت طلب کرنا اور اس ماہ مبارک کی نیک ساعتوں میں جہنم سے آزادی طلب کرنا ہمارے لیئے دنیا و آخرت میں کامیابی کا بہترین ذریعہ ہے لہذا اس مبارک مہینے کی عظمت اور برکت کو سمجھتے ہوۓ اور ان پر عمل پیرا ہوکر اس ماہ مبارک کو گزاریئے اللہ کریم ہمیں اس مہینے کی برکات کو سمجھنے کی توفیق بخشے آمین آئیے اس مہینے کی عبادات کے متعلق پڑھتے ہیں ۔
*رمضان المبارک کی عبادات ۔*
*روزہ کس پر فرض ہے؟*
توحید ورسالت کا اقرار کرنے اور تمام ضروریات دین پر ایمان لانے کے بعد جس طرح ہر مسلما پر نماز فرض قراردی گئی ہے اسی طرح رمضان شریف کے روزے بھی ہر مسلمان ( مرد عورت) عاقل و بالغ پر فرض ہیں۔ درمختار میں ہے: روزے 10 شعبان المُعظم 2 ھ کو فرض ہوئے۔ (در مختار و ردالمختار ج ۳ ص ۳۸۳)
*روزہ سے صحت کے لیئے مفید ہے* ۔
امير المؤمنين حضرت مولائے کائنات على الْمُرتَضى | شیر خدا وجهه الکریم سے مروی ہے، الله کے پیارے رسول ، رسول مقبول، سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے گلشن کے مہکتے پھول ﷺ کا فرمان صحت نشان ہے بے شک
اللہ نے بنی اسرائیل کے ایک نبی علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ آپ اپنی قوم کوخبر دیجئے کہ جو بھی
بندہ میری رضا کیلئے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے تو میں اس کے جسم کو صحت بھی عنایت فرماتا ہوں اور اس کو عظیم اجر بھی دوں گا۔(شعب الایمان جلد 2، صفحہ 12)
(حدیث 3923)
*ایک روزے کی فضیلت*
جس نے ایک دن کا روز والله تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئےرکھا اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے اتنا دور کر دے گا جتنا کہ ایک کوّا جو اپنےبچپن سے اڑنا شروع کرے یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر مر جائے۔ (ابو یعلی، ج1، ص383، حدیث 917)
*جسم کی زکوٰۃ*
ہر شے کیلیئے زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ آدھا صبر ہے۔( ابن ماجہ، حصہ 2، صفحہ 347، حدیث 1745)
*تراویح سنت مبارکہ ہے*
رسول اکرم نور مجسّم ﷺ نے فرمایا: جو رمضان میں
ایمان کے ساتھ اور ثواب کمانے کے لیے قیام کرے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے
جائیں گے ۔ (مسلم ص ۳۸۲ حدیث ۷۰۹) مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ اللّٰہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: تراویح کی پابندی کی برکت سے سارے صغیرہ(یعنی چھوٹے) گناہ معاف ہو جائیں گے کیونکہ گناہ کبیرہ ( یعنی بڑے گناہ) توبہ سے اور حقوق العباد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کے ساتھ حق والے کے معاف کرنے سے معاف ہوتے ہیں۔
(مراۃ المسانی، ج2، ص388)
*عظمت والی راتیں* ۔
ویسے تو ماہ رمضان کی تمام راتیں عظمت و برکت والی ہیں لیکن چند راتوں (اکیسویں تئیسویں پچیسویں ستائیسویں اور انتیسویں شب ) کے بارے میں فرمایا گیا ان میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو کہ یہ بڑی عظمت والی اور سب سے افضل رات ہے ۔
*لیلۃالقدر کہنے کی وجہ* ؟
لَيْلَةُ الْقَدْر انتہائی برکت والی رات ہے اس کو ليلة القدر اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں سال بھر کے احکام نافذ کئے جاتے ہیں اور ليلة القدر فرشتوں کو سال بھر کے کاموں اور خدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رات کی دیگر راتوں پر شرافت ونڈر کے باعث اس کو لیلۃ القدر کہتے ہیں اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں نیک اعمال مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں ان کی قدر کی جاتی ہے اس لئے اس کو لیلة القدر کہتے ہیں۔ (تفسیر خازن ج ۱ ص ۱۷۳) اور بھی متعدد شرافتیں اس مبارک رات کو حاصل ہیں۔ بخاری شریف میں ہے، فرمان مصطفے ﷺ جس نے ليْلَةُ الْقَدْر میں ایمان اور اخلاص
کے ساتھ قیام کیا ( یعنی نماز پڑھی) تو اس کے گزشتہ (صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔“
(بخاری، ج1، ص660، حدیث 2014)
اس مقدس رات
کو ہرگز ہرگز غفلت میں نہیں گزارنا چاہئے ، اس رات
عبادت کرنے والے کو ایک ہزار ماہ یعنی تیر اسی سال چار ماہ سے بھی زیادہ عبادت کا ثواب عطا کیا جاتا ہے اور اس سے زیادہ کا علم اللہ جانے یا اس کے بتائے سے اُس کے پیارے حبیب ﷺ جا نیں کہ کتنا ہے۔ اس رات میں
حضرت سید نا جبریل علیہ السلام اور فرشتے نازل ہوتے ہیں اور پھر عبادت کرنے والوں سے مصافحہ کرتے ہیں۔ اس
مبارک شب کا ہر ایک لمحہ سلامتی ہی سلامتی ہے اور یہ سلامتی صبح صادق تک برقرار رہتی ہے۔ یہ اللہ کا خاص الخاص کرم ہے کہ یہ عظیم رات صرف اپنے پیارے حبیب کے صدقے میں آپ کی امت کو عطا کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ۔
*ترجمہ کنز الایمان* : بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانا، کیا شب قدر؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر، اس میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں اپنے رب کے علم سے، ہر کام کیلئے وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک ۔
مفسرین کرام رحمہ اللہ سورة القدر کے ضمن میں فرماتے ہیں اس رات میں اللہ نے قرآن کریم لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل فرمایا اور پھر تقریباً 23 برس کی مدت میں اپنے پیارے حبیب صلی اللّٰہ تعال عليه والہ وسلم پر اسے بتدر بیج نازل کیا۔
سبحان اللہ اتنی عظمتوں اور برکتوں والا ماہ رمضان آنے والا ہے اللہ کریم ہمیں اس مبارک ماہ کی قدر و عظمت کو جان کر اسے نیکیوں میں گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے آمین ۔