20 رمضان المبارک فتح مکہ کا پس منظر

 فتح مکہ 

______________________________________________
______________________________________________

ہجرت کے آٹھویں سال رَمَضانُ المبارَک کے مہینے میں آسمان و زمین نے ایک ایسی فتح کا منظر دیکھا کہ جس کی مثال نہیں نہیں ملتی ، اس فتح کا پس منظر و سبب کیا تھا اور نتائج کیا رونما ہوئے اس کا خلاصہ ملاحظہ کیجئے۔ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت و اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی مکۂ مکرمہ کے وہ لوگ جو آپ کو صادق و امین ، شریف ، محترم ، قابلِ فخر اور عزت و کرامت کے ہر لقب کا اہل جانتے تھے یَک لخت آپ کے مخالف ہوگئے ، انہیں دینِ اسلام کے پیغام پر عمل پیرا ہونے میں اپنی سرداریاں کھوجانے کا ڈر ہوا ، انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اگر آج رسولِ خدا کی پُکار پرلَبَّیککہہ دیں تو 14صدیاں بعد تو کیا قیامت تک صحابیِ رسولِ آخرُالزّماں کے عظیم لقب سے جانے جائیں گے ، ہر کلمہ گو انہیں  رضی اللہُ عنہم  کہہ کر یاد کرے گا ، قراٰن (وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-)  کا مُژدہ سنائے گا ، بہر حال یہ ان کے نصیب میں ہی نہ تھا ، (جن کے مقدر میں تھا انہوں نے لَبَّیک بھی کہا) اور پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مخالفت کرنے والوں کے ہاتھوں طرح طرح کی اذیتیں اٹھائیں ، لیکن صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھا ، جب کفارِ مکہ کا ظلم و ستم ساری حدیں پار کر گیا اور اللہ کریم نے بھی اجازت دے دی تو مسلمان مکۂ مکرمہ سے مدینۂ منورہ ہجرت کرگئے تاکہ آزادی کے ساتھ اپنے ربِّ کریم کی عبادت کریں۔ لیکن افسوس کہ کفارِ مکہ پھر بھی باز نہ آئے اور مسلمانوں کو مدینۂ منورہ میں بھی اذیت دینے کے درپے رہے ، ان کی انہی کارستانیوں کے سبب غزوۂ بدر ، اُحُد ، خندق اور کئی سرایا کا وقوع ہوا ، وقت گزرتے گزرتے ہجرت کا چھٹا سال آگیا ، مسلمان مکۂ مکرمہ میں بیتُ اللہ شریف کی زیارت کے لئے بے قرار تھے ، چنانچہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  1400 صحابۂ کرام کی ہمراہی میں ادائیگی ِعمرہ کے لئے مکۂ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے ، کفارِ مکہ نے پھر جفا کاری سے کام لیا اور پُراَمْن مسلمانوں کو مکۂ مکرمہ میں داخل ہونے سے منع کردیا ، بالآخر طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پایا جسے صلح حدیبیہ کا نام دیا گیا۔ ظاہری طور پر اس معاہدہ کی اکثر شرائط مسلمانوں کے حق میں بہت سخت تھیں لیکن اللہ تعالیٰ کے کاموں میں حکمت ہے اور رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اسی کے بھیجے ہوئے حکیمِ کائنات ہیں ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے سب شرائط منظور فرمالیں ، ان شرائط میں یہ بھی تھا کہ فریقین دس سال تک جنگ موقوف رکھیں گے ، اس کے ساتھ ساتھ معاہدے میں ایک بات یہ طے پائی کہ عرب کے دیگر قبائل کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ دونوں فریقوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں باہمی امداد کا معاہدہ کر لیں۔ عرب کے دو قبیلے خزاعہ اور بنوبکر آپس میں دشمن تھے اور ان میں بہت عرصے سے لڑائیاں جاری تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد قبیلہ خزاعہ مسلمانوں کا دوست بن گیا اور بنوبکر نامی قبیلے نے قریش کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ اب چونکہ صلح کے معاہدے کی وجہ سے مسلمانوں کی طرف سے حملے کا کوئی امکان نہیں تھا اس لئے بنوبکر کی ایک شاخ بَنُو نُفاثہ نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کفارِ قریش کے ساتھ مل کر بنوخزاعہ پر اچانک حملہ کر دیا۔ یہ واضح طور پر صلح حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی جس میں بنوخزاعہ کو کافی جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس واقعے کی خبر جب رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو ہوئی تو آپ نے قریش کی طرف پیغام بھیجا کہ تین شرطوں میں سے کوئی ایک شرط قبول کر لیں : (1)خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا (یعنی ان کے قتل کا بدلہ) دیں (2)بنو نفاثہ کی حمایت سے دست بر دار ہو جائیں (3)اعلان کردیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔ قرطہ بن عمرنے قریش کا نمائندہ بن کر کہا کہ ہمیں صرف تیسری شرط منظور ہے۔  10رمضان المبارک 8ہجری کو نبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  دس ہزار کا لشکر لے کر مکے کی طرف روانہ ہو گئے۔ مکہ شریف پہنچ کر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے یہ رحمت بھرا فرمان جاری کیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کے لئے امان ہے ، جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے گا اس کے لئے امان ہے ، جو مسجدِ حرام میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے امان ہے۔ مزید فرمایا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے بھی امان ہے۔  پھر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے کعبۂ مقدّسَہ کو بُتوں سے پاک فرما کر کعبہ شریف کے اندر نفل ادا فرمائے ، اور باہر تشریف لا کر خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد کفارِ قریش سے ارشاد فرمایا : بولو! تم کو کچھ معلوم ہے؟ کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟

کفار آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی رحمت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بولے : اَخٌ کَرِیْمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے بھائی کے بیٹے ہیں۔

نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی رحمت جوش میں آئی اور یوں فرمایا : لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا

اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ آج تم پر کوئی الزام نہیں ، جاؤ تم آزاد ہو۔ بالکل غیر متوقع طور پر یہ اعلان سُن کر کفار جوق در جوق دائرۂ اسلام میں داخل ہونے لگے۔

اس عام معافی کا کفار کے دلوں پر بہت اچھا اثر پڑا اور وہ آ آ کر آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرنے لگے ، فتحِ مکہ کے روز دو ہزار افراد ایمان لائے تھے۔

فتح مکہ کے دوران اسلام قبول کرنے والے حضرات

حضرت سہیل بن عمرو  رضی اللہُ عنہ  سردارانِ قریش میں سے تھے۔ پہلے اس خوف سے اپنے گھر میں بند ہو گئے تھے کہ کہیں مجھے قتل نہ کر دیا جائے کیونکہ حالتِ کفر میں انہوں نے اسلام کی بہت زیادہ مخالفت کی تھی۔ انہوں نے اپنے بیٹے جو مسلمان تھے ، ان کے ہاتھ سرکار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں امان کا پیغام بھیجا تو آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے انہیں امان عطا فرما دی اور اس کے بعد وہ ایمان لے آئے۔  حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح  رضی اللہُ عنہ  یہ بھی قریش کے سرداروں میں سے تھے۔ حضرت سیّدُنا عثمان بن عفان  رضی اللہُ عنہ  کے رضاعی بھائی تھے۔ یہ پہلے اسلام لانے کے بعد مرتد ہو گئے تھے ، اس لئے یہ حکم جاری کیا گیا تھا کہ جہاں ملے قتل کر دیا جائے۔ حضرت عثمان انہیں لے کر سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان کے لئے امان طلب کی ، سرکار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے انہیں امان عطا فرمائی اور بیعتِ اسلام لے لی ، یوں یہ بھی مسلمان ہو گئے اور ایسے زبردست مسلمان ہوئے کہ پھر کوئی ایسی بات ان سے سرزد نہیں ہوئی جو ان کے دین کو داغدار کرے۔  حضرت سیّدُنا امیر معاویہ اور ان کے والدِ محترم حضرت سیّدُنا ابوسفیان  رضی اللہُ عنہم  سمیت کئی اہم شخصیات فتحِ مکہ کے موقع پر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئیں ، جن میں سے چند نام یہ ہیں : حضرت ابو قحافہ ، حضرت حکیم ابن حزام ، حضرت جبیر ابن مُطعِم ، حضرت عبدالرحمٰن ابن سَمُرہ ، حضرت عَتَّاب بن اَسِید ، حضرت عَتَّاب بن سُلَیم اور حضرت عبداللہ بن حکیم  رضی اللہُ عنہم ۔
آج اگر کوئى مُعاشرے مىں کسى حد تک مقام حاصل کرلے تو وہ اپنى کم ظرفى کے سبب اپنى زبان اور طرزِ عمل سے بڑائى جتانے پر اتر آتا ہے اور اس کے دل سے عَفو و دَرگزر کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے، حالانکہ بندے کو اس موقع پر عاجزی ہی کرنی چاہئے کہ مُعاشرے میں اسے اچھی نگاہ سے دیکھا جانا اللہ کا فضل ہے اور شکر کا مقام ہے۔نبىِّ کرىم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام کے ہمراہ حرمِ الٰہى مىں داخل ہوئے، کعبہ کو بُتوں کى گندگى سے پاک کىا اور نَماز ادا فرمائی پھر باہَر تشرىف لے آئے۔ مسلمانوں کے علاوہ ہزاروں کُفّار و مشرکىن کا مجمع بھی موجود تھا، شہنشاہِ کونىن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس ہزاروں کے مجمع پرایک نگاہ ڈالى تو دىکھا کہ سردارانِ قرىش سر جُھکائے، لَرزاں وتَرساں کھڑے ہىں۔ شىخُ الحدىث علّامہ عبدُالمصطفىٰ اعظمى رحمۃ اللہ علیہ اس کى منظر کشى کرتے ہوئے تحرىر فرماتے ہىں: ان ظالموں مىں وہ لوگ بھى تھے جنہوں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے راستوں پر کانٹے بچھائے تھے، وہ لوگ بھى تھے جو آپ پر پتھروں کى بارِش کرچکے تھے، وہ بے رحم بھى تھے جنہوں نے دَندانِ مبارک کو شہىد کر ڈالا تھا، وہ خوں خوار بھى تھے جنہوں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر قاتلانہ حملے کئے تھے، وہ ظلم وستم ڈھانے والے بھى تھے جنہوں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى صاحبزادى سىّدہ زىنب رضی اللہ عنہا کو نىزہ مار کر اُونٹ سے گرادىا تھا۔ وہ آپ کے خون کے بھى پىاسے تھے حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے پىارے چچا حضرت امىر حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتِل اور ان کى ناک کان کاٹنے والے، ان کى آنکھىں پھوڑنے والے، ان کا جِگر چبانے والے اسى مجمع مىں موجود تھے، آج ىہ سب کے سب دس بارہ ہزار مہاجرىن و انصار کے لشکر کى حِراست مىں کھڑے کانپ رہے تھے، اسى عالَم مىں شہنشاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى نظرِ رَحمت ان جَفاکاروں کى طرف متوجہ ہوئى اور اىک سوال پوچھا جس نے ان پر لَرزہ طارى کردیا، فرمایا: اے گروہِ قرىش! تمہارا کىا خىال ہے، مىں تم سے کىسا سُلوک کرنے والا ہوں؟ انہوں نے اُمیدوں میں ڈوبے لہجے میں عرض کى:نَظُنُّ خَیْراً ہم حُضُور سے خیر کى اُمید رکھتے ہىں، آپ کرىم نبى ہىں اور اللہ پاک نے آپ کو قدرت عطا فرمائى ہے، رحمتِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا: مىں آج تمہىں وہى بات کہتا ہوں جو مىرے بھائى ىوسف (علیہ السَّلام) نے اپنے بھائىوں کے بارے مىں کہى تھى ”آج مىرى طرف سے کوئى گرفت نہىں، اللہ تعالىٰ تمہارے سارے گناہوں کو مُعاف فرمائے اور وہ سب سے زىادہ رحم فرمانے والا ہے۔“ جاؤ مىرى طرف سے تم آزاد ہو۔(سیرتِ مصطفے، ص438 تا 440، مدارج النبوہ،ج 2،ص490،489)عَفوو دَرگزر کا جو بے مثال مظاہرہ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا انسانى تارىخ اس کى مثال پىش کرنے سے قاصِر ہے۔کفارِ مکّہ اس شانِ رَحمت کو دىکھ کر جُوق دَر جوق بڑھ کر حُضورپُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دستِ مبارک پر اسلام کى بىعت کرنے لگے، وہ تلوارىں جو کل تک اسلام کی مخالفت میں برسرِ پیکار تھىں، اب وہ اسلام کى عظمت کا ڈَنکا بجانے کے لئے چمکنے لگیں، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اپنے سخت ترىن دشمنوں کے ساتھ ىہ روىہ حِلم وبُردباری کى عُمدہ مثال تھا، آپ کا ىہى طرىقہ کار ان کى ہداىت کا باعث بنا، رحمتِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى سىرت کا کوئى گوشہ اىسا نہىں جو کمالِ انسانىت کا آئىنہ دار نہ ہو، مُعاشرے کى تعمىر و تکمىل مىں جہاں اور بہت سى چىزىں اہمىت رکھتى ہىں وہیں ایک اہم اور ضَروری چىز حِلم وبُردباری بھی ہے۔ فتحِ مکّہ شاہد ہے کہ قبولِ اسلام سے پہلے جب حضرت عِکرمہ بن ابوجہل اپنى زوجہ کى معىت مىں حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى بارگاہ مىں حاضر ہوئے تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پہلے ہی صحابۂ کرام سے ارشاد فرما دیا تھا کہ عِکرمہ تمہارے پاس آنے والا ہے تم اس کے باپ کو بُرا نہ کہنا کىونکہ مَرے ہوئے کو اگر بُرا کہا جائے تو اس کے زندہ رشتہ داروں کو اذىت پہنچتى ہے۔ (سبل الہدیٰ و الرشاد،ج 5،ص253) چنانچہ ان کے آنے پر حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پُرجوش اِستقبال کرتے ہوئے فرمایا: مَرْحَبًا بِالرَّاكِبِ الْمُهَاجِر (مہاجرسوارکو خوش آمدید)۔(سبل الہدیٰ و الرشاد،ج 9،ص388) اس کے بعد وہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے کھڑے ہوئے اور یہ کہہ کر قبولِ اسلام کی سعادت پائی: اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَاَنَّكَ عَبْدُ الله وَرَسُولُه اس وقت سر شرمساری کے ساتھ جھکا کر عرض گزار ہوئے کہ یارسولَ اللہ!بلاشبہ آپ سب سے زیادہ کریم اور وفادار ہیں۔(سبل الہدیٰ و الرشاد،ج5،ص253، تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس،ج2،ص29) اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دوسروں کے ساتھ نرمی، عَفو و درگزر اور بُردباری کا رَویہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین