کامیاب طالب علم Successful Student

 کامیاب طالب علم 



      کامیاب طالب علم ( جزء 2 بہترین کامیابی )


: کالم نگار              

 نجیب الرحمن
کراچی پاکستان

ہمارے موضوع کا دوسرا جزء بعنوان کامیاب طالب علم ہے جسے ہم بہترین کامیابی کے موضوع کے تحت ذکر کر رہے ہیں بلاشبہ ایک کامیاب طالب علم ہی معاشرے کی اصلاح کرسکتا ہے ۔ چاہے وہ دینی طالب علم ہو یا دنیاوی طالب علم ہو۔ علم کی نعمت سے سرفراز ہوا ہر شخص باادب بااخلاق باکردار ہوتا ہے ۔جسے معاشرے کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ معاشرے کو اسلامی رسم و رواج پر قائم و دائم رکھنے کےطریقے معلوم ہوتے ہیں ۔ اصولاً تو کامیاب طالب علم سے مراد شاید پڑھائ میں اچھاہونا پوزیشن لیتے رہنا ہی کامیاب طالب علم کی نشانی سمجھا جاتا ہے لیکن غور کیا جاۓ تو یہی طالب علم جو فقط پوزیشن لے کر آگے جارہا ہوتا ہے کیا یہ زندگی میں اپنے سیکھے ہوۓ علم پر عمل کرتا ہے یا امتحان کے اوقات میں وقتی محنت کر کے آگے نکل رہا ہوتا ہے ۔علم کو اس کی اہمیت و فضیلت سمجھتے ہوۓ حاصل کر رہا ہے ؟ کیا یہی طالب علم اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کی بھی اصلاح کرتا ہے ؟ یہی طالب علم اپنے ہم درجہ ساتھیوں کا بھی ساتھ دیتا ہے یا فقط اپنی پوزیشن کے لیئے محنت کرتا ہے ؟ اسی طرح کے کئ سوالات طالب علم کا نام سنتے ذہن میں آنا شروع ہوجاتے ہیں جس کے جوابات تلاش کرنے میں مشکل درپیش ہوتی ہے درحقیقت ایک کامیاب طالب علم میں اس طرح کے سوالات کے جوابات اس کے عمل سے نظر آجاتے ہیں ۔ لہذا علم پر عمل کرنے والا طالب علم ہی کامیاب طالب علم ہوتا ہے۔ جو اپنے عمل سے پہچانا جاتا ہے ۔کامیاب طالب علم بننے کے لیئے کونسے امور پر عمل کرنا چاہئیے چند ذیل میں موجود ہیں ۔ حصول ِعلم کے بنیادی ارکان میں اہم رُکن استاد ہے، علم حاصل کرنے میں جس طرح درسگاہ و کتاب کی اہمیت ہے اسی طرح علم حاصل کرنے میں استاد کا ادب و احترام مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ استاد کی تعظیم شاگرد پر لازم ہے کہ استاد کی تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے اورادب کے بغیر علم تو شاید حاصل ہوجائے لیکن نورِ علم سے یقیناً محرومی ہوتی ہے اسے یوں سمجھئے باادب بانصیب ،بے ادب بے نصیب ہے لہذا استاد کا ادب کرنا بہت ضروری ہے ۔ اسی طرح جن کتابوں سے علم حاصل کر رہا ہے ان کا بھی ادب کرنا ضروری ہے ۔ اور اس کے بعد دوسرے درجہ پر علم پر عمل کرنا ہے ۔ساتھ ہی ساتھ علم کو بانٹنے کی عادت ہونی چاہیئے ۔ یاد رکھیئے علم ہمیشہ بانٹنے سے ہی بڑھتا ہے ۔لہذا علم دوسروں تک پہنچانا نیز ہم درجہ کو بتانے میں کنجوسی کرنے سے بچنا بھی ضروری ہے ۔ علم حاصل کرنے میں اپنی اور معاشرے کی اصلاح کرنا مقصود ہوناچاہیئے ۔ اپنی غلطی کو سدھارنے کی عادت ہونی چاہیئے ۔ بعض طلباء اپنی غلطی پر احساس یا اس غلطی کو درست کرنے کے بجاۓ غلطی بتانے والے کو اپنا دشمن سمجھ بیٹھتے ہیں جس سے غلطیاں اور بڑھتی ہیں۔لہذا یہی چند امور طالب علم اپنانے کی کوشش کرے تو شاید کامیابی کی طرف قدم بڑھنا شروع ہو جائیں ۔اور کامیاب طالب علم میں اس کا شمار ہوجاۓ۔۔۔ یہاں ہم نے کامیاب طالب علم بننے کے کچھ اصول بیان کردیے ہیں۔ اب ان کو اپنانے کے بعد طالب علم کو کامیابی کا ایوارڈ کچھ ان انداز میں ملتا ہے ۔جو طالب علم اوپر بتائ گئ باتوں پر عمل کرنے والا ہوتا ہے اس کا نتیجہ اسے باصلاحیت بنادیتا ہے ۔اس کے دل میں علم کا نور چمکتا ہے جو اسے نیک کاموں کی طرف مائل رکھتا ہے ۔علم کی نورانیت سے فیضیاب ہوکر دوسروں تک علم کی شمع اجاگر کرتا ہے ۔ معاشرے میں عدل و انصاف اور مساوات کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ جس سے معاشرے میں امن و سلامتی کی فزا قائم رہتی ہے ۔اپنے لیئے سہی سمت مقرر کرنا اس کے لیئے آسان ہوجاتا ہے ۔ پھر زندگی تمام شعبوں میں کامیابی مقدر بن جاتی ہے اور یہ کامیاب طالب علم ملک و قوم کے لیئے بہت بڑا علمی و عملی سرمایہ بن جاتا ہے جس کی آج کے دور میں بہت ضرورت ہے ۔۔۔۔ اللہ کریم ہمارے طلباء کو حقیقی معنوں میں کامیابی نصیب فرماۓ آمین ۔