عدل و انصاف
عدل عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے لغوی معنی ہیں برابری کرنا دوچیزوں کے درمیان موازنہ کرنا۔ دو حالتوں میں درمیانی راہ اختیار کرنا۔ اصطلاح میں عدل کا مفہوم بہت وسیع ہے کہ چیز کو دوبرابر حصوں میں اس طرح تقسیم کرنا کہ دونوں میں کمی بیشی نہ ہو۔ کسی چیز کو اس کےصحیح مقام پر رکھنا یعنی قول وعمل میں سچائی کے میزان کو کسی ایک طرف جھکنے نہ دینا وہی کام کرنا چاہیے اور وہی بات کہنی چاہیے جو سچائی کی کسوٹی پر پوری اترے۔ نیز ہر شخص کے ساتھ مناسب معاملہ کیا جائے جس کا وہ مستحق ہے۔ عدل کے مقابلے میں " ظلم " آتا ہے یعنی کسی چیز کو بے حل و موقع رکھنا۔ ایک ظالم کے ساتھ عدل" یہ ہے کہ اسے ظلم کرنے سے نجات دلائی جائے۔ اسلام وہ واحد دین ہے جس نے ایسے ضابطہ حیات کو مرتب کیا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسان زندگی کی حقیقی مسرتوں کو پانے میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔اسی معاملے میں اسلام نے سب سے زیادہ "عدل" پر زور دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ کی ہر طرح کی بے چینی اور خرابی کی اولین وجہ "عدل" سے انحراف ہے۔ معاشرہ میں خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے افراد ”عدل“ کو چھوڑ دیں۔ اسلام نے عدل کے متعلق تمام پہلوؤں میں رہنمائی فرمائی ہے چاہے عدل اجتماعی ہو یا انفرادی، معاشی ہو یا معاشرتی، قانونی ہو سیاسی۔ عدل ہی معاشرے کے بہتر نظام کا ضامن ہے، اسلامی معاشرتی زندگی کا بھی یہی تقاضا ہے کہ لوگوں کے درمیان اور زندگی کے ہر شعبہ میں عدل و انصاف کو فروغ دیا جائے۔
مُعاشرے میں انسانی حیات کی بَقا کیلئے حُقوق کی حفاظت بہت ضَروری ہے جو عدل و انصاف کی فراہمی کے بغیر ممکن نہیں۔ حقیقی عدل و انصاف تب ہی ممکن ہے جب امیرو غریب کے امتِیازی فرق اور سوچ کو یکسر ختم کردیا جائے۔ اسلام نےحقوق کی حفاظت کے لئے جہاں ”نظامِ عدل“ فراہم کیا ہےوہیں اس میں توازن برقرار رکھنے کے لئے مساوات کا پُرکشش اُصول بھی عطا فرمایا ہے۔ (جسے ہم اگلے مضمون میں تفصیل سے بیان کریں گے البتہ مساوات کی اہمیت کو عدل و انصاف کے پہلو سے یوں سمجھیئے کہ) مساوات اسلام کا خاصّہ ہے اور یہ ایسا وصف ہے کہ جس معاشرے میں اسلام عملی طور پر نافذ رہا ہو وہاں کے لوگوں کے جانی، مالی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق کی حفاظت کی بے شمار مثالیں قائم ہوئیں۔
اسلام نے "عدل" کا جو تصور پیش کیا ہے وہ آج بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہےاور جو اصول و ضوابط پیش کیے ہیں وہ آج بھی اہل دنیا کے لیے مشعل راہ ہیں اور ان پر عمل پیرا ہوکر دکھی انسانیت موجودہ مصائب و آلام سے نجات پاسکتی ہے۔ معیشت میں عدل سے پورا معاشرہ خوشحال ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں عدل سے کوئی فرد بنیادی ضروریات سے محروم نہیں رہتا۔ عدل زندگی کے تمام شعبوں میں توازن قائم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عدل کے متعلق ارشاد فرمایا ۔
ارشاد باری تعالیٰ : اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(90)
: ترجمہ
بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو۔
اللہ تعالیٰ نے عدل کو حکم ارشاد فرمایا ہے آپس میں عدل کریں مسلمانوں کو ان کے حقوق انصاف کے ساتھ دیں ہر دو چیزوں کے درمیان عدل قائم رکھنے میں ہی کامیابی ہے
یہاں عدل سے مراد وہ چیزیں ہیں جہاں عدل کی اشد ضرورت ہو جیسا کہ گھریلو معاملات میں ، مثلاً بچوں میں ، ایک سے زائد بیویوں کے درمیان بھی عدل قائم رکھنے کا حکم ہے ۔ تعلیمی اداروں میں مثلاً طلباء میں برابری رکھی جاۓ اچھے پڑھنے والے طلباء کو بھی اتنی ہی فوقیت ملے جتنی کمزور طلباء کو ملتی ہے اس کی برعکس صورت میں شاید کمزور طالب علم اور احساس کمتری کا شکار ہوسکتا ہے ۔ کمپنی ، آفس وغیرہ میں بھی ملازمین کے ساتھ عدل کا رواج قائم رکھا جاۓ تاکہ کام کرنے والے دل اور لگن سے اپنی ملازمت ہر توجہ دیں ۔لہذا ہمیں تمام معاملات میں عدل کی راہ اختیار کرنی چاہیئے اللہ تعالیٰ ہمیں عدل و انصاف سے کام لینے کی توفیق نصیب فرمائے آمین