اخوت (بھائ چارہ )
مضمون نگار : نجیب الرحمن عطاری
اخوت سے مراد بھائ چارہ ہے جو عام طور پر یوں سمجھا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا آپس میں ہر طرح سے ایک دوسرے کا خیال رکھنا ، مل جل کر رہنا ایک دوسرے کے خوشی و غمی میں شریک ہونا ، دکھ درد بانٹنا اور اخلاقیات میں اخوت کا پہلو بہت ہی اہم سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اخلاقیات نام ہی اخوت کا ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں بھائ چارگی کتنی ہے ۔سچی بات تو یہ ہے لوگوں میں سب سے زیادہ ملنسار شخص ہی با اخلاق کہلاتا ہے اور ایک با اخلاق انسان وہی ہوتا ہے جو دوسروں سے اچھے تعلقات قائم رکھتا ہے ۔اخوت کے معنی بھائی چارہ کے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : :مسلمان توآپس میں بھائی بھائی ہی ہیں کیونکہ یہ آپس میں دینی تعلق اورا سلامی محبت کے ساتھ مَربوط ہیں اوریہ رشتہ تمام دُنْیَوی رشتوں سے مضبوط تر ہے ،لہٰذاجب کبھی دو بھائیوں میں جھگڑا واقع ہو تو ان میں صلح کرادو اور اللہ تعالیٰ سے ڈروتا کہ تم پر رحمت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں کی باہمی محبت اور اُلفت کا سبب ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ا س پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔ (الحجرات آیت نمبر 10) اخوت کا اصول اسلامی معاشرے کا ایک اہم پہلو ہے۔ بھائی بھائی ہونے کی حیثیت سے وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ اور خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں۔ اُخوت اور بھائی چارے کا احساس ، محبت والفت ، باہمی تعاون، بے لوث خدمت اور قربانی کے جذبات کو ابھار تا اور فروغ دیتا ہے۔ اس طرح معاشرہ تمام لوگوں کے لیے پر امن اور پر آسائش بن جاتا ہے۔ اخوت و بھائی چارہ کا عظیم مظاہرہ مسلمانوں کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے موقع پر نظر آیا تھا۔ اہل مدینہ (انصار) نے نہ صرف اُن (مہاجروں) کو خوش آمدید کہا بلکہ اپنی تجارت اور جائداد میں اُنھیں حصہ دار بنالیا۔ ہمارے پیارے نبی ” صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَ أَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ”ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور اپنے مسلمان بھائی کو تکلیف پہنچانے کا ذریعہ نہیں بنتا ہے۔ رسول اکرم " صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَ أَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے مشورہ دیا کہ ”آپس میں تحائف کا تبادلہ کیا کرو۔ اس سے محبت اور الفت پھیلتی ہے۔ مختصر یہ کہ ایک مسلمان کو اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے کسی قسم کی کدورت نہیں رکھنی چاہیے اور نہ ہی حسد کرنا چاہیے۔ اور آج کے اس دور میں اخوت کی کمی ہمیں باغور دکھائ دے رہی ہے ۔ہر انسان اپنی زندگی میں مصروف نظر آرہا ہے اسی مصروفیت میں مگن یہ انسان نہ تو کسی کی خوشی میں خوش ہوپاتا ہے نہ کسی کے غم میں شریک ہوپاتا ہے مسلمانوں کو اپنے معاشرے میں اخوت کی خوبی کو بڑھانا چاہیئے جس سے اسلامی معاشرہ قائم دائم رہے اور تمام مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے واقف ہوسکیں اس میں سب سے بڑی چیز سلام کو عام کرنا ہے مسلمان اگر آپس میں اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سلام جیسی نیکی کو عام کرتے رہیں گے ان شاءاللہ سلام کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ حال احوال کی طرف بھی بڑھیں گے اور ایک دوسرے کے حالات سے آشنا / باخبر ہونے کا طریقہ یہی ہے کہ سلام سے پہل کی جاۓ اور یہی سلام ان شاءاللہ ایک دن اخوت کی خوبی معاشرے میں پھیلاۓ گا ۔آئیے ! مسلمانوں کے باہمی تعلق کے بارے میں 3 اَحادیث ملاحظہ کیجیۓ ۔
(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مسلمان ،مسلمان کابھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کورُسواکرے ،جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتاہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتاہے اورجوشخص کسی مسلمان سے مصیبت کودورکرتاہے تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں سے کوئی مصیبت دُورفرمادے گااورجوشخص کسی مسلمان کاپردہ رکھتاہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کاپردہ رکھے گا۔۔۔۔۔۔(۔البخاری حدیث 2442)
(2)…حضر ت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں ،جب اس کی آنکھ میں تکلیف ہوگی توسارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگراس کے سرمیں دردہوتوسارے جسم میں دردہوگا۔( ۔مسلم حدیث 2586 )۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔( مسلم حدیث 2585)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے باہمی تعلقات سمجھنے اور ا س کے تقاضوں کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔