Skip to main content

بہترین کامیابی

 


                                                             کامیابی



  *موضوع : *بہترین کامیابی کیا ہے۔ 

 

             *کالم نگار* *نجیب الرحمن*

                         *کراچی پاکستان*

  بہترین کامیابی کسے کہتے ہیں ؟ حقیقی کامیاب کون ہے  ؟ کیا وہ جسے دولت مل جاۓ ۔کیا وہ جو کلاس میں  پہلے نمبر پر آجاۓ ۔کیا وہ جس کی جاب اچھی لگ جاۓ ۔ کیا وہ جس کی سب کے سامنے تعریفیں ہوں۔ غور کیجیۓ حقیقی کامیابی کیسے حاصل ہوتی ہے اور بہترین کامیابی کسے کہتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو اس طرح سمجھیئے کہ کامیابی کی دو قسمیں ہیں ۔ایک ، جزوی کامیابی اور   دوسری ، کلی کامیابی 

جزوی کامیابی وہ ہے جو زندگی کے کسی ایک دو معاملات میں ہو ، جیسے کسی مصنف کے لئے اس کی کتابوں کا چھپنا ، بکنا ، پسند کیا جانا ، کامیابی ہے۔ یونہی بزنس مین کے لئے کاروبار بڑھنا ، پھیلنا ، دوسرے شہروں میں شاخیں کھل جانا ایک بڑی کامیابی ہے۔ اسی طرح نوکری پیشہ کے لئے اچھی تنخواہ ، اچھا عہدہ ، عہدے میں ترقی ، تنخواہ میں اضافہ اور اچھی کارکردگی کا ایوارڈ ملنا ایک مرغوب کامیابی ہے۔ اسی طرح کی تفصیل دِینی معاملات کے اعتبار سے بھی ہوسکتی ہے۔

لیکن کامیابی کا ایک کُلّی ، جامع اور بلند تر معنیٰ ہے جو حقیقت میں ہمارا مطلوب و مقصود ہونا چاہئے۔ کامیابی کا وہ مفہوم بحیثیتِ انسان اور بطورِ مسلمان اس لئے حقیقی ، کامل اور اعلیٰ ہے کہ اس کا علم ہمیں اُس علیم و خبیر ہستی نے دیا ہے جو ہم سے زیادہ ہمیں جاننے والا ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے : ترجمہ : کیا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا؟ حالانکہ وہی ہر باریکی کو جاننے والا ، بڑا خبردار ہے۔ (پ29 ، الملک : 14) اگر پیسہ ہی انسان کی کامیابی کے لئے کافی ہوتا تو کوئی مال دار دنیا میں دُکھی نہ ہوتا ، جبکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ بہت سے پیسے والے نافرمان اولاد ، زبان دراز بیوی ، تباہ حال صحت اور انتشارِ ذہنی کی وجہ سے زندگی عذاب میں گزارتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ان مسائل میں سے کوئی مسئلہ بھی نہ ہو پھر بھی حقیقی کامیابی کا دعویٰ نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر دنیا میں ہر چیز حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ بندہ خدا کی لعنت و غضب کا مَوْرِد اور عذابِ جہنم کا مستحق ہے ، تو ایسی کامیابی ، ناکامی ہی ہے۔ *کامیابی کا وسیع تر اسلامی تصوریہ ہے* کہ خدا راضی ہو ، آخرت میں نجات ملے ، جہنم سے چھٹکارا اور جنت میں داخلہ حاصل ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسان رضائے الٰہی کو اپنا مقصودِ اصلی بنا کر کوشش کرتا ہے اور وہ کوشش احکامِ خدا ، ہدایاتِ اسلام ، تعلیماتِ شریعت ، اتباعِ سنت کے مطابق ہوتی ہے تو اس کے سارے کام ہی سیدھے ہوجاتے ہیں ، مخلوق راضی ، بیوی خوش ، بچے فرمانبردار ، ذہن پُرسکون اور رزق میں قناعت نصیب ہوجاتی ہے۔ نبیِّ کریمﷺ  کا اس کے متعلق ایک بہت خوبصورت فرمان ہے : اسود بن یزید نے روایت کیا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہُ عنہ  نے کہا کہ میں نے تمہارے محترم نبیِّ کریم  ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : “ جس نے اپنے سارے غموں کو آخرت کا غم بنا لیا تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیا کے غم کے لئے کافی ہے ، اور جو دنیاوی معاملات کے غموں اور پریشانیوں میں الجھا رہا ، تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوا۔ “ (ابن ماجہ ، 4 / 425 ، حدیث : 4106) کامیاب لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ترجمہ : اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرےاور اس (کی نافرمانی)سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔  (پ18 ، النور : 52)   قرآن بتاتا ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں : ایک وہ جو صرف دنیا کی کامیابی چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو دنیا و آخرت کی کامیابی مانگتے ہیں۔ چنانچہ طالبینِ دنیا کے متعلق فرمایا : ترجمہ: اور کوئی آدمی یوں کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دیدے اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔ (پ2 ، البقرۃ : 200)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اور طالبینِ آخرت کے متعلق فرمایا : ترجمہ : اور کوئی یوں کہتا ہے کہ اے ہمارے رب!ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں بھی بھلائی عطا فرمااور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ ان لوگوں کے لئے اُن کےکمائے ہوئے مال سے حصہ ہے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے (پ2 ، البقرۃ : 202 ، 201)  اور کوئی یوں کہتا ہے۔}اس آیت میں مذکور مسلمان کی دعا بہت جامع دعا ہے اورتھوڑے الفاظ میں دین و دنیا کی تمام بھلائیاں اس میں مانگی گئی ہیں۔حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم  ﷺ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے:اے رب ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا۔ ایسوں کو ان کی کمائی سے بھاگ ہے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے۔(بخاری، کتاب الدعوات) دنیا کی بھلائی میں ہر اچھی اور مفیدشے داخل ہے خواہ وہ کفایت کرنے والا رزق ہو یا اچھا گھر یا اچھی بیوی یا اچھی سواری یا اچھا پڑوس وغیرہ۔قرآن کی نظر میں ایمان اور اچھے کردار والے حقیقت میں کامیاب ہیں۔  ( صراط الجنان) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ترجمہ: یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔ یہاں ہمارے لیئے سوچنے کا مقام ہے کہ ہم کن لوگوں میں سے ہیں ۔ ہمارا شمار کن میں کیا جاتا ہے ۔کیا واقعی ہم بھی کامیاب لوگوں کی فہرست پر گامزن ہیں یا نہیں اگر نہیں تو پھر کونسی کامیابی کی تلاش میں پڑے ہیں ۔حقیقی کامیابی حاصل کرنا (یعنی آخرت کو بہتر بنانا) یہی مقصود ہے ہماری دنیاوی زندگی کا ہے ۔ کاش کہ ہم اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو  بہترین بنانے میں کامیاب ہوجائیں ۔ اللہ کریم ہمیں حقیقی کامیابی نصیب فرماۓ آمین 🤲🏻۔

Comme