ایمانداری
مضمون نگار: نجیب الرحمن
دنیا میں کئ دین ہیں اور ان میں دینِ اسلام ہی ہے جو انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے ، یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام نے ایسے اعمال و افعال و اخلاق اپنانے کا حکم دیا ہے جن کے ذریعے انسانی حقوق کی حفاظت ہو۔ ایسے ہی اخلاق و افعال میں سے “ ایمانداری “ بھی ہے۔ چونکہ ایمانداری ایک بہترین صفت ہے اور اخلاقیات میں سب سے نمایاں نظر آنے والی خوبی ہے جسے ہر انسان پسند تو کرتا ہے لیکن ہر شخص اسے اپنانے کی کوشش نہیں کرتا ۔حالانکہ ایمانداری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایمانداری اپنانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور نبی کریم صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ بھی ایمانداری کا بہترین نمونہ ہے ۔کفار مکہ تو آپ کے دشمن ہونے کے باوجود بھی آپ کی ایمانداری کی تعریفیں کیا کرتے تھے۔ اور ہر مومن کو چاہیئے کہ اس صفت کو خود میں اجاگر کرے تاکہ سیرت مصطفٰی صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم کی بھی پیروی ہوسکے اور اس خوبی کے ذریعے لوگوں میں ایک مقام حاصل کرلے ۔جو لوگ ایمانداری کے وصف سے آراستہ ہوتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی بروقت ادائیگی کرتے ہیں وہ تمام لوگوں میں پسندیدہ اور قابلِ تعریف ہوتے ہیں۔ ایمانداری ایمان والوں کی بہترین صفت ہے اور ایک مسلمان کا ایماندار ہونا بہت ضروری ہے۔ آج کل ہم سمجھتے ہیں کہ ایمانداری کا تعلق صرف اس بات سے ہے کہ کوئ ہمیں اپنی بات بتاۓ تو ہم اسے محدود رکھیں یا کسی کی مالی امانت آئ ہے تو اسے محفوظ رکھیں اور اسے وقت پر سہی سلامت ادا کریں ۔نہیں ایسا نہیں ہے ! اصلاً تو ایمانداری تو بہت سارے حقوق پر ہے دنیاوی کئ حقوق ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے بعد انسان کامل ایمان والا ہوتا ہے اور رسول اکرم نور مجسم شاہِ بنی آدم حضرت محمّد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔ (
مسند احمد، 4/271، حدیث:12386یعنی ایمان کامل نہیں۔اللہ کریم اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی ایمانداری ہے چنانچہ نماز پڑھنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، زکوٰة دینا ، حج کرنا ، سچ بولنا اور دیگر نیک اعمال ادا کرنا بھی امانت ہے۔ اسی طرح انسان کے اعضاء مثلاً زبان ، آنکھ ، کان ، ہا تھ وغیرہ بھی اللہ پاک کی امانت ہیں اور ان اعضاء کو گناہوں اور فضولیات سے بچانا ان اعضاء کے معاملے میں ایمانداری ہے۔ یوں ہی دوسرے کے راز کی حفاظت کرنا ، پوچھنے پر دُرست مشورہ دینا ، مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کرنا ، مزدور اور ملازم کا اپنا کام مکمل طور پر پورا کرنا بھی ایمانداری میں داخل ہے۔جس طرح آج ہمارے معاشرے میں دیگر کئی اچھائیاں دَم توڑتی دکھائی دیتی ہیں وہیں امانت داری کا بھی فُقدان نظر آتاہے۔ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ امانت دار اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے والے افراد کو بعض کم عقل لوگ بے وقوف سمجھنے لگے ہیں۔ گویا معاشرے کی سوچ اس قدر منفی ہوچکی ہے کہ بُرائی کو اچھائی اور اچھائی کو بُرائی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اندر ایمانداری کی صفت کو اجاگر کریں اور دوسروں کے حقوق پوری طرح ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اندر اچھی صفات پیدا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے آمین۔