آخر عمل کیوں نہیں ؟ ? Why Not Act

            موضوع: آخر عمل کیوں نہیں؟

       از خود نوٹس : نجیب الرحمن           


جس طرح علم حاصل کرنا ضروری ہے اسی طرح علم کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے ۔ انسان اپنے عمل سے پہچانا جاتا ہے ۔عمل سے انسان کے چہرے پر  خوشنودی، اخلاق میں حسن ، مزاج میں نرمی نظر آتی ہے  دورِ حاضر میں چند لوگ  ایسے ہیں جنہیں  دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید انہیں  بذات خود عمل سے آزادی ملی ہو اور فقط دوسرے لوگوں پر تنقیدوں کے پُل باندھنا  اور( اپنی اصلاح کیئے بغیر) دوسروں کی اصلاح کرتے رہنا  ان کی زمہ داری ہو۔اس  متعلق حدیث مبارکہ ملتی ہے ۔حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا: روزِ قیامت ایک شخص کو لا کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ (شدتِ عذاب کی وجہ سے) اس کے پیٹ کی آنتیں باہر گر پڑیں گی۔ پھر وہ اس طرح گردش کرے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد چکر لگاتا ہے۔ اہلِ دوزخ اس کے گرد جمع ہو کر پوچھیں گے: اے فلاں شخص! تمہاری یہ حالت کیوں کر ہے؟ کیا تم ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے اور برائی سے منع نہیں کرتے تھے؟ وہ شخص جواب دے گا: ہاں میں تمہیں تو نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور میں تمہیں تو برائی سے روکتا تھا لیکن خود برے کام کرتا تھا۔ (حوالہ مسلم شریف ) کچھ ایسے لوگ اور چند ایسی  تربیت گاہیں جن سے علم کے ساتھ عمل  کی تربیت ملنی چاہیئے ان کا غیر سنجیدہ اندازِ تربیت لوگوں کو عمل کی طرف آنے سے روک دیتا ہے۔جن میں اول سطح درس گاہ ہے ۔ جہاں استاد طلباء کو علم کی عظیم دولت سے سرفراز  کرتا ہے ۔ لیکن بعض عمل سے گۓ گزرے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے طلباء بھی بد عملی اور برے کاموں کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔بلکہ آج کے دور میں تو بہت عام طور پر دیکھا جارہا ہے کہ اساتذہ اور طلباء غیر مناسب افعال میں مصروف نظر آتے ہیں ۔بلکہ سب سے بڑی بد قسمتی اور بے شرمی کی بات تو یہ ہے کہ آج کل اساتذہ طلباء کو تعلیم دیتے ہوۓ بھی فلموں ڈراموں اور گانوں باجوں کی مثالیں دے رہے ہوتے ہیں ۔در اصل ان میں خود عمل کی کمی اور دین سے دوری انہیں اس مقام تک پہنچادیتی ہے کہ وہ حقیقتاً اپنی تربیت بھی نہیں کر پارہے ہوتے اور بنام طلباء کو تعلیم دینے کا فریضہ ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اس طرح کی درس گاہیں (جہاں ایسے نااہل اساتذہ طلباء کو تعلیم دے رہے ہیں جنہیں خود علم پر عمل کرنے کی ہوش نہیں ہوتی)  طلباء کا مستقبل برباد ہونے کے زمہ دار ہیں۔  میرا ماننا ہے کہ جن افراد کی معاشرے میں پیروی کی جاتی ہیں انہیں ہر غیر مناسب فعل سے بچنا چاہیئے کہ لوگ وہی کرتے ہیں جو انہیں کرتا  دیکھتے ہیں۔

لہذا ہر اس سطح کا شخص جس کی پیروی کی جاتی ہے  چاہے وہ والدین ہوں یا اساتذہ ہوں انہیں سنجیدہ اور باکردار و باعمل ہونا چاہیئے  ۔کیوں کہ یہ معاشرے کے رہنماء ہیں۔علم ایسی عظیم دولت ہے جو انسان کو عمل کی طرف راغب کرتی ہے لیکن عمل کی طرف جانا یہ بذات خود انسان کی کوشش پر مشتمل ہے ۔کہ جتنا اس نے علم حاصل کیا اس پر عمل کی کوشش کرے ۔ صرف استاد ہی نہیں بلکہ ہر اہل قلم و مقرّرین  اور ہر رہنماء کو چاہیئے کہ جو کہے لکھے خود بھی اس پر عمل کرنے والا ہو ۔ علم کو سہی معنوں میں اس کا منصب و مقام دلائیں اور قوم کا فکری معیار ظاہر کی دلکشی سے بلند کر کے باطن کی پاکی کی طرف منتقل کریں۔مزید  عدم عمل پر ایک حدیث مبارکہ اور ملتی ہے ۔حضرت زید بن ارقم بیان کرتے ہیں حضور خاتم النبیین صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے اللّٰہ میں اس علم سے جو نفع نہ دے اس دل سے جو تجھ سے ڈرتا نہ ہو اس نفس سے جو سیر نہ ہوتا ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہوتی ہو تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ( حوالہ مسلم شریف)  لہذا ہمیں چاہیئے کہ علم کی عظیم دولت سے سرفراز ہونے کے ساتھ ساتھ عمل کی عظیم نعمت کی طرف راغب ہونے کی کوشش کی جاۓ ۔اللہ تعالیٰ ہمیں  سہی معنوں میں علم پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرماۓ آمین