پاکستانی معاشرہ میں برداشت کیوں نہیں ہے ؟

برداشت کیوں ختم ہوتی جارہی ہے ؟

 مضمون نگار : نجیب الرحمن

اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان پیدا فرمایا ہے
 اور اسلام نے شروع سے ہی مسلمانوں کو حسن اخلاق ، عدل و انصاف ، مساوات ،خوش مزاج ، صبر و تحمل سے زندگی گزارنے کا درس دیا ہے جہاں دین اسلام نے بڑے بڑے معاملات میں رہنمائ کی ہے وہیں ایک پُر امن معاشرے کی تشکیل کے لیئے بھی ہدایت و رہنمائی دی ہے اور یہی دین اسلام کا طرّہ امتیاز رہا ہے اور مذاہب عالم میں اس کی برتری اور فوقیت کی ایک وجہ حسن تربیت بھی ہے ۔مگر آج کے دور میں عدم برداشت ہر طبقہ میں دیکھی جارہی ہے چاہے دینی طبقہ ہو یا دنیاوی طبقہ جامعہ ہو یا اسکول ،گھر ہو یا آفس ،استاد ہو یا شاگرد ، ماں باپ ہوں یا اولاد ہوں سب میں برداشت کی قوت ختم ہوتی جارہی ہے اور ماحول میں خرابی بڑھتی جارہی ہے جس کا برا نتیجہ یہ ہے کہ ایک کامیاب معاشرہ تشکیل پانے سے قاصر ہے کیونکہ برداشت کی صفت نہ ہونا ایک ایسی دینی ، دنیاوی ، اخلاقی ،سماجی و معاشی اور معاشرتی کمزوری ہے جو معاشرے میں پیدا ہونے والی تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔بالاخر معاشرے کو دیمک کی طرح ختم کر دینے والی اس خرابی کی وجوہات کیا ہیں ؟

بقول ماہرین نفسیات عمرانیات عدم برداشت ایک ایسا زہر ہے جس سے ایک شخص نہیں بلکہ ایک شخص کے واسطے سے پورا معاشرہ اس زہر کا اثر محسوس کرتا ہے ۔معاشرے میں جہاں تک اس کے اثرات کا تعلق ہے بے شمار خرابیاں اور بے سکونی محض اس عدم برداشت کے سبب ہی جنم لیتی ہے ۔جیسا کے معاشرے میں طلاق کا تناسب بڑھنے کی بنیادی وجہ یہی عدم برداشت ہے ۔میاں بیوی کے درمیان معمولی سی باتوں پر اپنی آنا اور خود غرضی کو سر پر اٹھا کر جس قدر عدم تحمل کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس کا نتیجہ گھریلو ناچاکیوں کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہے ۔ایسے ہی سگنل بند ہونے کی صورت میں جلد بازی کا مظاہرہ کرکے نکلنے والے افراد ٹکراؤ ہونے کے سبب برداشت کی کمی کی وجہ سے جھگڑتے نظر آتے ہیں اور معاملہ اس طرح کی سنگین نوعیت کے جھگڑوں کی صورت میں نظر آنے لگتا ہے۔ اسی عدم برداشت کی نحوست کی وجہ سے آج تعلیمی اداروں میں استاد اور شاگرد کے درمیان بھی ایک خَلا سی نظر آتی ہے ۔
ان مشاہدات کے بعد ان تمام وجوہات کو تلاش کیا گیا ہے  جو پورے معاشرے کو اس عدم برداشت کی وجہ سے گھائل کرتی ہیں تلاش و جستجو کے بعد چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں ۔سب سے پہلی وجہ گھریلو تربیت ہے ۔بچہ کی تعلیمی و تربیتی ضرورت کو اچھی طرح پورا کیا جاۓ بچپن ہی سے ماں باپ گفتار و کردار میں مکالمے و ڈیلینگ میں رہن سہن میں نوعمری سے ہی جارحانہ انداز رکھیں تو یہی بچہ بچپن ہی سے برداشت کی قوت کو پاسکے گا دوسری وجہ دینی تعلیم کی کمی بھی ہے مشاہدہ کی بات ہے کہ انسان جیسے جیسےعلم سے سنورتا جاتا ہے طبیعت میں سنجیدگی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اگر اسلام کے احکامات کی طرف سہی طرح غور کریں تو معلوم ہو کہ اسلام نے تو ہمیں درس ہی صبر و تحمل اور برداشت کا دیا ہے ۔رسول اکرم صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی حسن اخلاق سے پیش آنے ، درگزر کی عادت کو اپنانے کی ہی تلقین فرمائی ہے ۔تیسری ایک نئ اور اہم وجہ جو اس جدید ٹیکنالوجی کے دور پائ جارہی ہے وہ میڈیا کا منفی کردار بھی ہے ۔اس وقت ٹیلی ویژن و سوشل میڈیا پر دکھاۓ جانے والے فلمیں، ڈرامے، پروگرامز ،ٹاک شوز اور فتنوں بھرے طور طریقے معاشرے میں منفی اثرات پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں ۔جن کی وجہ سے معاشرے میں ماحول کی خرابی کے ساتھ ساتھ نئ نئ غیر اخلاقی حرکات بڑھ رہی ہیں اور ان ڈراموں کے سبب گھروں کے حالات بھی بگڑتے جارہے ہیں لوگ ان غیر اخلاقی ڈراموں میں دکھاۓ جانے والے طور طریقے اپنانے میں مگن ہوتے جارہے ہیں جو ایک اسلامی معاشرہ قائم کرنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ معاشرہ میں برداشت اور صبر و تحمل کی عادات ختم ہوتی جارہی ہیں ۔اور عدم برداشت جیسی دیگر برائیاں بڑھتی جارہی ہیں ۔ یقیناً وجوہات اور بھی ہوسکتی ہیں مگر اختصار کی غرض سے انہیں پر اکتفاء کیا جاتا ہے ۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے میں برداشت کی قوت کو پیدا کیا جاۓ صبر و تحمل کو اپنایا جاۓ اور زندگی کو پرسکوں طریقے سے گزارا جاۓ اللہ تعالیٰ ہمیں برداشت کی قوت بڑھانے اور صبر و تحمل کو اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے آمین ۔