روٹی کی فکر کیوں کرتے ہو ؟

 



مضمون نگار : نجیب الرحمن

آج کے اس پر فتن دور میں بڑھتی مہنگائ نے پاکستانی مسلمانوں کی قمر توڑ رکھی ہے بلکہ ہمارے وہ مسلمان حضرات جن کا تعلق مالی طور پر درمیانے طبقہ سے ہے وہ اپنے رزق کی تلاش کے بارے میں بہت فکر مند نظر آتے ہیں درحال کے یہ سب ہماری ہی اکثر قوم کی لاپرواہی ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر ایسے حکمرانوں کو مسلط کرنا پسند کیا جو ان کو فقط ترقی کے خواب دکھایا کرتے تھے البتہ آج ہمارے پاکستانی معاشرے کے لوگ بہت پریشان اور افسردہ نظر آتے ہیں کہیں کاروبار نہیں ہے اور جہاں کاروبار چل رہا ہے وہاں برکت نہیں ہے ۔ جہاں ملازمین کام کرتے ہیں ان کی تنخواہوں میں عدم اضافہ کے سبب بڑھتی مہنگائ میں زندگی گزارنا دشوار ہوتا جارہاہے ۔ کمپنیاں ، کارخانے ادارے والے اپنے ملازمین کو مہنگائ کے سبب نکالتے جارہے ہیں اور یہ ملازمین بے روزگاری کا شکار ہورہے ہیں ۔اور ان تمام برے اثرات میں ملک کی قوم اپنے رزق و روزی کے لیئے گہری سوچوں میں مبتلاء ہیں۔ 

اور اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے وہ کسی کو بھوکا نہیں سلاتا کہیں نا کہیں سے اسباب رزق پیدا فرماتا ہے کہ انسان اس سبب اپنا رزق کماکر / کھاکر رات گزارتا ہے نیز ہمیں ہر دم ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیئے ۔اور دنیا تو ایک مسلمان کے لیئے ہے ہی آزمائش گاہ یہاں کی پریشانیوں تکلیفوں اور مصیبتوں پر صبر کرنا ہی مؤمن کو مضبوط بناتاہے پھر آخرت میں بھی اس کا اجر عظیم پاے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے پر اپنا خاص فضل فرماۓ آمین ۔آئیے رزق کی فکر کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اور بہت بڑے ولی اللہ کا قصہ پیش خدمت ہے پڑھ کر ہمیں صبر اور شکر کی دولت حاصل کرنی چاہیئے ۔

  حضرت ابویعقوب بصری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں دس دن تک حرم شریف میں بالکل بھوکا پیاسا رہا غرض کہ بے طاقتی پیدا ہوگئی۔ حرم شریف سے باہر آیا تو کیا دیکھتا ہوں۔ سر راہ ایک شلغم پڑا ہوا ہے۔ جی چاہا اسے اٹھالوں لیکن باطن سے آواز آئی۔ دس روز کی بھوکے بعد تیری قسمت میں کیا یہ گلا سڑا سلغم ہی رہ گیا ہے؟ میں نے شلغم کو وہیں چھوڑا اور مسجد چلا آیا تھوڑی ہی دیر بعد ایک شخص مسجد آیا اور روغنی روٹیوں کی ایک چنگیر شکر اور بادام سمیت میرے سامنے رکھ دی اور کہنے لگا کہ میں کشتی میں سفر کر ہاتھا کہ دریا میں طوفان آ گیا۔ اس وقت میں نے نذر مانی کہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے سلامتی بخشی تو یہ چیز اس درویش کی نذر کروں گا جوسب سے ، پہلے ملے۔ میں نے ہر شے سے ایک ایک مٹھی لے لی اور کہا باقی میں تجھی کو بخشتا ہوں یہ کہہ کر میں نے اپنی ذات سے مخاطب ہوا اور کہا دیکھا حق تعالیٰ نے تیری روزی کیلئے ہوا کو حکم دیا کہ وہ دریا میں اس کا اہتمام کرے اور تو ہے کہ ادھر ادھر مارا مارا پھرتا ہے۔ 

غرض اس قسم کی عجیب و غریب حکایات کا مطالعہ اور ان کی حقیقت سے آگا ہی آدمی کے ایمان کو مضبوط ومستحکم کرتی ہیں۔ اس حکایت سے ہمیں یہ سبق بھی حاصل کرنا چاہیئے کہ بزرگان دین اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اپنی بھوک کی فکر نہیں کیا کرتے تھے طویل وقت تک کچھ کھاۓ پیئے بغیر اللہ کی عبادت کرتے تھے اور اللہ پر توکل کرتے تھے تو کیسے اللہ تعالیٰ ان کے لیئے رزق کے اسباب پیدا فرمادیتا ہے لہذا ہمیں بھی چاہیے اللہ تعالیٰ نے ہم جن چیزوں کو فرض کیا ہے ان فرائض کو صحیح طرح انجام دیں اور اللہ تعالیٰ پر توکل قائم رکھیں ان شاءاللہ ہمارے تمام کام سنور جائیں گے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں صبر و شکر اور توکل کی عظیم دولت سے مالا مال فرماۓ آمین ۔